اس میں دورائے نہیں کہ پاکستان کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے اور ان پر قابو پانے کے لیے ایسے فیصلے کرنے ضروری ہیں، جن سے عوام بڑی پریشانیوں سے بچ سکیں۔ وزیراعظم کی جانب سے مربوط معاشی اصلاحات کی پالیسی کا نہ آنا ناقابل فہم عمل بنتا جارہا ہے، تاہم تصور کیا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے انہیں حکومتی مشکلات کا اندازہ نہ تھا اور زمینی حقائق کا مکمل ادراک نہ ہونے کے سبب ان کے بیانات جارحانہ ہوتے تھے۔ دوم اس کا بھی گمان کیا جاسکتا ہے عمران وزرات عظمیٰ کے حصول کے لیے صرف ایک نکتے پر ٹکے تھے۔
تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتیں اس وقت حکومت کا حصہ ہیں اور ریاست کو درپیش مسائل حل کرنے کے لیے انہیں ہی اقدامات کرنے ہوں گے۔ اب یہ کس پالیسی کے تحت کیے جاتے ہیں، اس حوالے سے عوام کے سامنے صرف ایک بیانیہ ہی آیا کہ پچھلی حکومتوں کی وجہ سے 36 ٹریلین قرضے ”وراثت” میں ملے ہیں۔ اس کو مسترد بھی نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ ہر نئی حکومت اقتدار سنبھالنے کے بعد کچھ اسی طرح کے بیانات دیتی ہے۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ دو ماہ میں قرضے نہ لیتے تو دیوالیہ ہوجاتے تو دو مہینے میں کن سے، کتنا، کن شرائط پر قرضہ لیا۔ یہ ابھی وضاحت طلب ہے۔”تسلیم” کہ چلیں آپ درست فرماتے ہیں، بعض اقدامات سے عوام کے لیے مشکلات پیدا ہوئی ہیں، لیکن ان سے کیسے نکلا جائے؟ آئی ایم ایف کے پاس آخری بار جانے کا ”سیاسی” بیان سامنے آچکا کہ تین برس میں خسارہ ”ختم” ہوجائے گا، لیکن کیسے…؟ اس منصوبے سے سب لاعلم ہیں، کیونکہ وزیراعظم فرمارہے ہیں کہ قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لیے قرض لینے پڑرہے ہیں، یعنی سود بھی اپنی جگہ قائم اور قرض بھی نہیں اترے گا۔ اب تک منی لانڈرنگ روکنے کے لیے اسٹیٹ بینک کی جانب سے بائیومیٹرک نظام واحد قابل تحسین اقدام ہے۔
زرمبادلہ میں اضافہ اور غیر ملکی سرمایہ کاری سمیت ملک میں منجمد صنعتوں کی بحالی نہ ہونے تک مملکت معاشی بحران سے باہر نہیں نکل سکتی۔ کیا اس کے لیے حالات سازگار ہیں تو اس کا جواب غیر اطمینان بخش ہے۔ بلاشبہ پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردوں کی کمر توڑی اور دن رات ایک کردیے۔ حساس اداروں کے خلاف نادان دوستوں نے غیر پسندیدہ تحریک بھی شروع کی، لیکن منفی پروپیگنڈے کے بل پر کسی بھی قوم کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔
پاکستان کی معاشی شہ رگ کراچی ہے، جس کے امن کا کریڈٹ رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے حساس اداروں کے سَر جاتا ہے، لیکن ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ رینجرز جب تک کراچی میں ہے، امن کی مصنوعی چھت موجود ہے۔ اگر ریاست سمجھتی ہے کہ وہ شہرِ قائد میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی تو پھر رینجرز کی واپسی کا ٹائم فریم دے دے۔ کراچی سے رینجرز کی واپسی کا کوئی وقت مقرر نہ کیا جانا، اشارہ کرتا ہے کہ کراچی کبھی بھی نادیدہ اور نامعلوم افراد کے ہاتھوں دوبارہ یرغمال ہوسکتا ہے۔ لہٰذا شہر میں معاشی سرگرمیاں جب تک مکمل بحال نہیں ہوں گی۔ ملکی معیشت میں بہتری کے جلد آثار ممکن نہیں، کیونکہ کراچی مملکت کو 70 فیصد ریونیو دیتا ہے۔ سی پیک منصوبہ افغانستان میں امن سے مشروط ہے، جب تک وہاں امن نہیں ہوتا، ون بیلٹ ون روڈ کی کامیابی میں رکاوٹیں موجود ہیں۔ پاکستان نہیں چاہتا کہ امریکی افواج سوویت یونین کی طرح افغانستان کو تنہا چھوڑ جائیں۔ دوسرے معنوں میں کہا جاسکتا ہے کہ امریکا، بھارت کو جانشین بناکر افغان جنگ سے باہر نکلنا چاہتا ہے تو یہ پاکستان کے لیے قابل قبول نہیں۔ لہٰذا سی پیک سے بڑی توقعات اور معاشی بحران کے خاتمے میں کردار کے لیے ابھی کئی برس لگیں گے۔
بالفرض آئی ایم ایف، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سے قرضہ مل جاتا ہے، نیز چین اور عالمی مالیاتی ادارے قرضے ری شیڈول بھی کردیتے ہیں تو اس کے بعد پاکستان کے پاس معاشی مشکلات سے نکلنے کا کون سا راستہ ہے۔ یہ قرضے محدود مدت تک کچھ آسانی تو پیدا کریں گے لیکن ان کی کڑی شرائط کو لاگو کرنے سے مہنگائی کا جو سونامی آئے گا، اس کی شدت عوام برداشت نہیں کرپائیں گے۔ وزیراعظم اور ان کی ٹیم کے لیے قابل اعتماد قلیل و طویل المدتی معاشی پالیسی عوام کے سامنے لانا ضروری ہے۔ جو اقدامات کیے گئے، وہ معاشی بدحالی کا مستقل حل نہیں۔ اب جبکہ عمران زمینی حقائق کو جان چکے کہ اپوزیشن اور حکومت میں کیا فرق ہوتا ہے تو انہیں یہ بھی سمجھ آگئی ہوگی کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے انہوں نے جو دعوے کیے تھے، وہ ناممکن تو نہیں لیکن ان حالات میں ناقابل عمل ضرور ہیں۔عوام تحریک انصاف کی حکومت سازی کو سمجھ نہیں پارہے کہ وہ کرنا کیا چاہتے ہیں۔ اُن کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ پچھلی حکومت سڑکوں اور میٹرو بسوں و ٹرین بنانے میں مگن تھی جس سے عوام کو براہ راست کوئی فائدہ نہیں پہنچا اور اربوں روپے خرچ ہونے اور قرض لینے کے باوجود یہ پُرمنفعت منصوبے قرار نہیں دیے جاسکتے۔ اسی طرح موجودہ حکومت مکانات بنانے کے لیے نجی سیکٹر کو پچاس لاکھ گھروں کا منصوبہ دینے کی خاطر غیر منطقی اقدامات کررہی ہے۔ اس قسم کے کئی منصوبے تو ماضی میں بھی شروع کیے گئے لیکن کرپشن اور اقرباپروری سمیت اقساط کی عدم ادائیگیوں نے تمام منصوبوں کو ناکام بنایا۔
سعودی عرب عالمی سرمایہ کانفرنس کا اہتمام کرتا ہے۔2030وژن کے عظیم منصوبے میں اسے سرمائے کی انتہائی ضرورت ہے۔ اب ان حالات میں عمران خان، کانفرنس میں غیر ملکی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے کس طرح کی ترغیبات دیتے ہیں، یہ دلچسپ صورتحال ہوگی۔ کیونکہ یہ کانفرنس تو سعودی حکومت نے اپنے ملک میں سرمایہ کاری کیلئے منعقد کی ہے۔ اس میں وزیراعظم پاکستان بھی شرکت کرینگے۔ پھر عمران خان 3سے 5نومبرکو چین کے دورے پر جائیں گے۔ آئی ایم ایف کا وفد7نومبر کو پاکستان آئے گا، لہٰذا جو کرنا ہے اس سے پہلے کرنا ہوگا۔قطر کی جانب سے ایک لاکھ پاکستانیوں کو ملازمت دینے کی اطلاعات اہمیت کی حامل ہیں اور فوری پاکستان کو زرمبادلہ ملنے کا واحد راستہ بھی یہی ہے کہ جتنی زیادہ افرادی قوت بیرون ملک جائے گی، زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا۔
حکومت کو قائم ہوئے دو مہینے ہی گزرے ہیں، احباب کی ناراضی اپنی جگہ کہ تحریک انصاف کو موقع دیں تنقید نہ کریں۔ پہلے بھی یہی عرض کیا تھا کہ پی ٹی آئی پر بلاجواز تنقید اور حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرنا پاکستان کے لیے مشکلات کا باعث بنے گا، لیکن جن حالات کا سامنا اس وقت عوام کو ہے اور جو اقدامات موجودہ حکومت کررہی ہے، اس سے خود تحریک انصاف کے کارکنان میں تشویش کی لہر پائی جاتی ہے۔ یہ قبول کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ مربوط پالیسیاں بنا بھی لی جائیں تو اس کے اثرات کئی برسوں بعد ظاہر ہوں گے۔ کسی بھی حکومت کے پاس الٰہ دین کا چراغ نہیں کہ وہ راتوں رات دیرینہ مسائل حل کرسکے، بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ کرپشن کی لپیٹ میں ہے اور اس رجحان کی وجہ سے مشکلات کا فوری حل بھی ممکن نہیں، لیکن کم ازکم اتنا تو کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ حکومت عوام اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے اور اپنے تمام غیر منطقی بیانیوں پر نظرثانی کرکے قوم کواضطراب سے باہر نکالے، تاکہ اپنی حکومتی مدت بخوبی پوری کر سکے۔