تحریر : عماد ظفر عبدالستار ایدھی صاحب 92 برس کی عمر میں انتقال فرما گئے. سماعتوں کو نہ تو اب تک یقین آ رہا ہے اور بصیرتوں کو نہ اعتبار. ہم بچپن سے ایک ہی نام مصیبت کی گھڑی اور انسانوں کی خدمت کے حوالے سے سنتے آ رہے تھے اور وہ تھا ایدھی صاحب کا نام. پاکستان میں جب کوئی قدرتی آفت آئی یا دہشت گردی ہوئی بے سہارا افراد ہوئے یا لاوارث لاشیں ایدھی صاحب ہر دکھ کی گھڑی میں ہمت اور حوصلے کے ساتھ ایک ریاست کی طرح اپنے وطن باسیوں کے ساتھ کھڑے رہے. ایدھی نے خدمت کرتے ہوئے نہ کسی کا رنگ پوچھا نہ نسل نہ مذہب. صرف پاکستان میں ہی نہیں ایدھی نے دنیا بھر میں انسانیت کی خدمت کی. نہ جانے کیوں جب بھی کوئی مصیت کی گھڑی ہموطنوں پر آتی تھی تو دل کو ایک یقین سا ہوتا تھا کہ ایدھی صاحب موجود ہیں کچھ نہ کچھ تکالیف کا مداوا ہو ہی جائے گا. لگتا تھا خدا نے کوئی فرشتہ ایدھی صاحب کی صورت میں زمین پر بھیجا ہے۔
ایدھی نے جو خدمات انجام دیں شاید ہی کوئی ایسا آدمی یا بالغ پاکستان میں موجود ہو جو ان سے نابلد ہو. ایدھی کے جانے کے بعد احساس ہو رہا ہے جیسے کوئی اپنا گھر کا فرد ہم سے بچھڑ گیا ہو. گو ایدھی جیسے افراد کبھی بھی نہیں مرتے کہ ان کی خدمات اور ان کے کام ہمیشہ انہیں زندہ رکھتے ہیں لیکن پھر بھی ایدھی لاکھوں کڑوڑوں افراد کیلئے رب کائنات کی طرف سے ان کی خدمت پر معمور تھا اور یہ خلا شاید ہی کوئی اور اب پر کر سکے. بحث مباحث میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایدھی صاحب کی وفات کو لے کر سب پریشان نظر آتے ہیں اکثر حضرات ایدھی صاحب کی خدمات یا ان کی گئی باتوں کے اقتباسات ایس ایم ایس کرتے یا سوشل میڈیا پر شیئر کرتے پائے جاتے ہیں۔
لیکن کسی کو اتنی فرصت نہیں کہ اپنی اپنی زندگی میں سے صرف چند لمحات نکال کر ایدھی صاحب کی خدمات انکی انسان دوستی اور اپنی بے حسی کو جانچ سکے. ایدھی ایک عہد کا نام ہے اور یہ عہد تاریخ میں انسانیت دوستی اور انسانوں کی لازوال خدمات کے بارے میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا. لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا جائے گا کہ ایدھی ایک چھوٹے اور بے حس معاشرے میں واحد انسانیت کا علمبردار شخص تھا.جس نے ریاست کی ذمہ داریوں کو اپنے سر لے کر تن تنہا کڑوڑہا افراد کی خدمت کی.وہ فرائض جو ریاست کو انجام دینے چائیے تھے وہ ایدھی نے انجام دئیے. اور آج یوں لگتا ہے جیسے کہ ایدھی کی وفات سے ریاست پاکستان یتیم ہو گئی ہے. بے سہارا خواتین کو چھت چاھیے ہوتی تھی تو ایدھی ہومز لا وارث بچوں کو وارث چاھیے ہوتا تھا تو ایدھی سینٹر. گمنام لاشیں ہوں یا ایسے نادار جو تدفین نہ کر سکیں ان کیلئے بھی ایدھی کی خدمات حاضر۔
Edhi
دنیا کے چند بڑے ایمبولینس نیٹ ورکوں میں سے ایک ایدھی کا تھا اور ریاست سے زیادہ برق رفتاری اور کئی گنا زیادہ تعداد میں ایدھی کی ایمبیولینس مصیبتوں کی گھڑی میں نظر آتی تھیں. ہم نے آنکھ کھولنے سے لیکر آج تک ریاست کو تو اپنے شہریوں کے کام آتے کبھی نہیں دیکھا اور نہ ہی ان کی ذمہ داری قبول کرتے دیکھا ہے لیکن ایدھی کو ہم نے خود دیکھا کہ اس نے کیسے یہ فرض ادا کیا. نہ جانے قدرت ایدھی جیسے گوہر نایاب کو تخلیق کرتے وقت کون سی مٹی کا استعمال کرتی ہے کہ یہ عظیم لوگ ساری زندگی انسانیت کی بھلائی کیلئے صرف کر دیتے ہیں. نہ دن کی پرواہ نہ رات کی اور نہ ہی اپنے سکھ چین کی. زندگی بس دکھی انسانیت پر مرہم رکھتے رکھتے صرف کر دیتے ہیں. مجھے یقین ہے کہ ایدھی صاحب جیسے افراد قدرت کی طرف سے انسانوں کو ایک تحفہ ہوتے ہیں اور ایک اشارہ بھی کہ دیکھو یہ ہے انسانیت کی معراج.ہم گو بونوں کی بستی میں رہتے ہیں لیکن اس بستی میں ایدھی جیسے قد آور شخص کا موجود ہونا ایک نعمت سے کم نہیں تھا. ایدھی نے جو زندگی بسر کی اسے قابل رشک قابل فخر کہنا بہت چھوٹے الفاظ ہیں۔
بس دکھ اس بات کا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے کبھی ایدھی سے سبق نہیں حاصل کیا. اگر ایک تن تنہا شخص کڑوڑوں افراد کی خدمت کر سکتا ہے تو پروٹوکول اور سرکاری مراعات حاصل کرتے حکمران کیوں نہیں. ایدھی نے اپنے عمل سے ثابت کر کے دکھایا کہ اگر عزم پختہ ہو اور واقعی میں انسانیت کی خدمت کرنا مقصود ہو تو ایک شخص بھی بہت کچھ کر سکتا ہے. کراچی کے ایک معمولی سے فلیٹ میں بس کر بھی انسانوں کی خدمت کی جا سکتی ہے یعنی انسانوں کی بھلائی کیلئے محلات یا سکیورٹی اور پروٹوکول کے حصار میں گھومنا ضروری نہیں ہے. بلکہ شاید ایدھی نے ہمارے معاشرے کو اپنے عمل سے واضح پیغام دیا کہ یہ سیاستدان آمر اور اقتدار کے لالچی افراد محض طاقت حاصل کرنے آتے ہیں اور انسانیت کو پیروں تلے کچل کر چلے جاتے ہیں دوسری جانب ایدھی جیسے افراد ہیں جو بس دینا جانتے ہیں جو خوشیاں بانٹنا اور زخموں پر مرہم رکھنا جانتے ہیں۔
ایدھی نے جس سادہ انداز سے زندگی گزاری اس کے بعد ووٹوں کی بھیک مانگنے والے حکمران و دیگر سیاستدان یا چندہ اکھٹا کرتے دیگر افراد کیسے اور کس منہ سے ایک عیاش زندگی گزارتے ہیں فہم سے بالاتر ہے. ایدھی نے جتنا اعتبار پاکستانیوں کا جیتا شاید ہی کوئی اور جیت سکے اور پھر اس اعتبار کو مان میں بدلنا تو شاید ہی کسی اور کیلئے ممکن ہو. آج یوں لگ رہا ہے جیسے ایدھی نہیں بلکہ ایک شفیق باپ ہم سے بچھڑ گیا ہو. آج یوں لگ رہا ہے جیسے ہمارا پورا معاشرہ یتیم ہو گیا ہے. ایدھی صاحب نے آج بچھڑ کر ہمیں پھر سے یتیم کر ڈالا۔