تحریر : خاور حسین عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت تھا جب گرومندر کے پاس بلاول ہاوس کے سیکورٹی انچارج بلال شیخ کی گاڑی کے قریب دھماکہ ہو میں اس وقت اپنی کیمرہ ٹیم کے ہمراہ مزار قائد کے نزدیک ہی پیکچ شوٹ کررہا تھا۔ دھماکے کی آواز سنتے ہی جائے وقوع کی طرف روانہ ہوا، جگہ کا تعین کرنے میں کوئی پانچ سے دس منٹ لگ گئے۔ دل میں خیال تھا کہ شاید سب سے پہلے جائے وقوعہ پر ہم ہی پہنچیں گے۔ لیکن جب جائے وقعہ پر پہنچے تو انسانیت کے دشمنوں کو خون کی ہولی کھیلے چند منٹ ہی گزرے تھے۔
فضاء میں دھواں اور بارود کی بدبو ابھی چھٹی نہیں تھی خوف کے گہرے سائے وہیں منڈلا رہے تھے کہ انسانیت کے مسیحا ایدھی کی شکل میں ایدھی کے رضاکار خون میں لت پت میتوں اور زخمیوں کو اٹھا کر ایمبولینس میں ڈالے اسپتال کی طرف بھاگ رہے تھے کہ شاید کسی انسان کی جان بچ جائے۔ کیوں کہ ایدھی جانتا تھا کہ ایک انسانی جان کی قیمت کعبہ کی حرمت سے زیادہ ہے۔
کیوں کہ ایدھی جانتا تھا کہ ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کو زندگی دینے کے برابر ہے۔ کراچی میں عاشورہ دھماکے کے بعد چہلم امام حسین کا جلوس نکلا تو تمام شیعہ حضرات نے کفن اوڑھا ہوا تھا جس پر لبیک یاحیسن لکھا تھا، لوگوں کے ہجوم میں ایک بوڑھا شخص بھی کفن اوڑھے چلا جارہا تھا میں نے غور سے دیکھا تو وہ ایدھی تھا میں قریب گیا اور پوچھا ایدھی صاحب آپ یہاں کیسے آپ تو سنی ہیں۔
Abdul Sattar Edhi
میمنی لہجے میں جواب ملا میں انسان ہوں اور یہ بھی انسان ہیں، آج میں انسانیت کے دشمنوں سے لڑنے آیا ہوں۔ دل میں سوچا یہ اسی سال کا بوڑھا کیا لڑے گا۔ لیکن وہ حسین کے لشکر کا حبیب ابن مظاہر تھا۔ سات سالہ صحافتی کریئر میں کبھی ایسا نہیں ہوا ہے ہم نے ایدھی کے رضاکاروں کو شکست دی ہو۔ کوئی دھماکہ ہو کوئی حادثہ ہو کہیں آگ لگے۔ میڈیا اور پولیس سے پہلے ایدھی کے رضاکار وہاں موجود ہوتے۔ کئی مرتبہ جب کسی حادثے کے مقام پر کھڑے بور ہونے لگتے تو ایدھی ایمبولینس کے ڈرائیور کا انٹروویو لینا شروع کردیتے۔ باتوں ہی باتوں میں سوال کرتے کہ ایدھی صاحب کیسے آدمی ہیں۔ عموماًُ ایسا ہوتا ہے کہ ملازم اپنے مالک سے کبھی خوش نہیں ہوتا۔
لیکن اس کے برخلاف ایدھی کے رضاکار ہمیشہ کہتے کہ ایدھی صاحب کام کے معاملے میں بہت سخت ہیں وہ ہمیں کہتے ہیں کہ گاڑیوں سے پیٹرول چوری کرو گے تو معاف کردوں گا، کسی مریض یا میت کے لواحقین سے زیادہ پیسے لے لو گے تو بھی معاف کردوں گا لیکن اگر کسی انسان کی بوسیدہ میت کو دیکھ کر منہ موڑا، یا حقارت سے دیکھا تو کبھی معاف نہیں کروں گا۔ انسان کی لاش چاہے کتنے دن پرانی ہی کیوں نہ ہو۔ لاش سے کتنا ہی تعفن کیوں نہ اٹھ رہا ہو اس میت کو اٹھانے میں دیر مت کرنا۔ یہ درس تھا اس انسانیت کے مسیحا کا اپنے رضاکاروں کے لئے۔
میں اکثر سوچتا تھا کہ ایدھی صاحب انسانوں کے لئے اتناُسب کچھ کرتے ہیں نیک کام ہے لیکن جانوروں کے لئے جو سینٹرز قائم کئے ہیں وہ تو سراسر پیسے کا ضائع ہے۔ ہمارے ملک میں جہاں انسانوں کو بہتر علاج کی سہولت میسر نہیں وہاں یہ شخص جانوروں کے لئے بھی اتناپیسہ خرچ کرتا ہے۔لیکن میں غلط تھا ایدھی صاحب جس مقام پر پہنچ چکے تھے وہاں مذہب اور انسانیت بہت چھوٹی چیزیں تھی ایدھی کو تو ہر جاندار کا احساس تھا۔ بابائے انسانیت تم بہت یاد آوگے۔