تحریر : سجاد علی شاکر تعلیم کا حصول مرد اور عورت دونوں پر فرض ہیں۔ گزرے برسوں میں والدین صرف اور صرف اپنی اولاد نرینہ کو اعلیٰ تعلیم سے بہرہ ور کرواتے تھے۔ جب کے لڑکیوں کو محض پرائمری یا مڈل تک تعلیم دلواتے تھے۔ رفتہ رفتہ زمانہ ترقی کرتا گیا تو والدین کی سوچ میں بھی تبدیلی آئی اور انہوں نے لڑکیوں کو بھی اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرنا شروع کر دیا۔
جدید دور میں فنی تعلیم کی بہت اہمیت ہے اور لڑکیاں بھی اس تعلیم سے فیض یاب ہو رہی ہیں۔فنی تعلیم کسی بھی معاشرے کے تعلیمی اور معاشی استحکام کی ضامن ہوتی ہے،لیکن پاکستان میں فنی تعلیم پر توجہ عمومی تعلیم سے کہیں کم ہے،جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں فنی تعلیم کی شرح صرف 4سے 6فیصد جب کے ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 66فیصد تک جا پہنچی ہے۔اس کے باوجود تعلیم کے میدان میں لڑکیاں بھرپور دل چسپی لیتے ہوئے مختلف شعبہ جات میں بہترین کارکردگی دکھا رہی ہیں۔
پاکستان کا مستقبل فنی تعلیم سے جڑا ہے اور نوجوان نسل کو فنی علوم سے آراستہ کر کے نہ صرف بے روزگاری کے مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے فنی علوم س،بلکہ ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر بھی گامزن کیا جا سکتا ہے۔ دنیا میں انہی قوموں نے تیزی سے ترقی کی منازل طے کی ہیں،جنہوں نے اپنی نوجوان نسل کو عہدحاضر کی ضروریات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے جدید علوم سے آراستہ کیاہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہیں، جن کی بڑی آباد ی نو جوانوں پر مشتمل ہے۔انہیں جدید علوم، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مارکیٹ کی ضرورتوں کے مطابق مختلف فنون وشعبہ جات میں تربیت دے کر ملک کی تیز رفتار ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندئہ تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
Technical College
فنی تعلیم میں لڑکوں کے علاوہ لڑکیاں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی اور کا لجوں میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعدادمیں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ بعض تعلیمی اداروں میں لڑکوں اور لڑکیوں کا تناسب 50فیصد ہے اور کچھ ایسے تعلیمی ادارے بھی ہیں،جن میں لڑکیوں کی تعداد 70فیصد سے بھی تجاوز کر چکی ہے اور لڑکے صرف 30فیصد ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ملازمت پیشہ افراد میں بھی لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
خواتین کا تعلیمی میدان میں لڑکوں کے شانہ بشانہ کامیابیاں حاصل کرنا اور ملازمت میں آگے آنا ایک خوش آئند پیش رفت ہے، کیوں کہ ماضی میں پاکستان میں لڑکوں کے مقابلے لڑکیاں کافی پیچھے رہی ہیں۔ملک کی تقریبا 52فیصد آبادی کو غیر فعال رکھنا اور معاشی سر گرمیوں میں شریک نہ کرنا کسی لحاظ سے بھی فائدہ مند نہیں ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے خواتین چند ایسے شعبہ جات میں بھی آگے آ رہی ہیں، جن میں پہلے صرف مردوں کی اجارہ داری تھی۔ قانون اور زراعت کے شعبے میں چند برس پہلے لڑکیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ لڑکیاں ان شعبوں میں بہت کم تعلیم حاصل کرتی تھیں۔
لیکن گزشتہ چند برسوں میں ان شعبوں میں بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ ملک کے زرعی کالجوں اور یونیورسیٹوں میںلڑکیوں کی تعداد لڑکوں کی تعداد کے مساوی ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ سائنس اور آرٹس کے دیگر شعبہ جات میں مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کی تعداد روز بروز اضافہ بڑھ رہا ہیں ،جو کچھ عرصہ پہلے مردوں کے لیے مخصوص تھے۔
Sajjad Ali Shakir
تحریر : سجاد علی شاکر sajjadalishakir@gmail.com 03226390480