خون بہانا ۔۔۔۔ دین نہیں

Terrorism

Terrorism

تحریر: ڈاکٹر خالد فواد الازہری

کوئی بھی دین حق اپنے پیروکاروں کی اس بات کی تعلیم نہیں دیتا کہ زندگی بسر کرنے کا حق صرف تمہی کو حاصل ہے اور باقیوں کے ساتھ جس طرح کا پست سے پست روایہ روارکھو تو کوئی مضائقہ نہیں ۔اسی طرح اسلام نے ہمیں سکھایا ہے کہ دین کی طرف حکمت و موعظت اور خوش اسلوبی کے ساتھ دعوت دیں۔ہمیں جناب رسول کریمۖ نے یہ بھی بتایا ہے کہ ہم اہل الذمہ(اقلیت،غیر مسلم)کے حقوق کا لحاظ و پاس رکھنے کے ساتھ ان کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ روا رکھیں۔اگردشمنان اسلام اپنی کمین گاہوں میں وجود رہیں اور ہمیں کوئی تکلیف و دکھ نہ پہنچائیں تو ہم پر لازم ہے کہ ہم کسی پر جارحیت مسلط نہ کریں۔حضورۖ کو جب اللہ تعالیٰ نے اپنے دشمنوں پر غلبہ عنایت فرمایا تو اس روز آپۖ ان سب کو معاف کردیا سوائے چند کے۔

بعثت اسلام کے آغاز سے ہی کائنات میں اس کو پنپتے دیکھ کر اس کے خلاف کافروں نے برابر کوشش و سازشیں کی ہیں کہ کہیں یہ قوت و سطوت نہ حاصل کرلے۔لیکن اللہ تعالیٰ نے اسلام پر جاری تمام حملوں کے اسلام کو افق میں اپنی خوبصورت دلکشی کے ساتھ اعلی مقام پر متمکن فرمایا۔تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے کبھی بھی خونی کھیل نہیں کھیلا اور نہ ہی کشت و خون کے بازار سے زمین کو لالہ زار بنایاماسوا اس کے کسی نے سرکشی کی تو اس کی سرکوبی کی اجازت اسلام نے دی ہے۔ہماری تاریخ میں کوئی ایسا موقع نہیں آیا کہ مسلم فوج کسی علاقہ میں داخل ہوئی ہو اور اس نے وہاں فساد بپا کیا ہو، نہ ہی ناحق خون کسی کا بہایا ،نبی اکرمۖ نے منع کیا ہے کہ حالت جنگ میں بھی بچوں ،عورتوں اور بزرگوں کو قتل نہیں کرنا اور نہ ہی ان کو جو جنگ میںکسی بھی طرح شریک نہ ہوں۔ یہاں تک قرآن نے حکم دیا ہے کسی پر ہجوم و پیش قدمی نہ کرو الا یہ کہ جس قدر جس نے جرم کیا اتنی ہی اس کو سزا دی جائے۔

مسلم فوج کی یہ صفت و عادت رہی ہے کہ وہہ کسی بچے، بوڑھے اور عورت کو نقصان نہیں پہنچاتے تھے اور نہ ہی عبادت خانوں اور گھروں میں گوشہ نشینی اختیار کرنے والوں پر حملہ کرتے تھے کہ وہ جنگ سے علیحدہ ہوکر عبادت میں مشغول ہوتے ہیں۔تاریخ نے یہ ذکر نہیں کیا مسلمانوں نے چرچ، عبادت خانے پر سرکشی کی ہو باوجود اس کے کہ زمانے پر ان کا حکم چلتا ہو۔دوسری جانب خود عیسائی مذہب کے پیروکاروں نے صلیبی جنگ میں 70ہزار سے زائد مسلمانوں کوبیت المقدس میں قتل کیا۔اسی طرح عیسائیوں نے مغول کا ساتھ دیتے ہوئے لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کرایا۔ یہ سلسلہ تادم زیست جاری ہے کی تنگ نظر و متعصب عیسائی مساجد و مسلمانوں کو شہید کرتے نظر آتے ہیں۔

مسلمانوں نے امن و آشتی اور سلامتی کا درس و پیغام دیا ہے۔غیر مسلمانوں کے ساتھ گفت و شنید حسن خلق کے ساتھ کرنے کا درس اسلام نے دیا ہے۔علماء اسلام انسانیت کے ساتھ تعاون اور ہاتھ بٹانے کا درس دیتے ہیں۔ مسلمان دوسروں کے عقیدوں کا احترام کرتے ہیں اور ان کی عبادات کا بھی۔ جو لوگ مطالعہ اسلام کرچکے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اسلام وہ دین برحق ہے جو رواداری اور زندگی کی خوشیاں بانٹنے کا درس دیتاہے نہ کہ ایسا دین ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ دشمنی قائم کرے یا پھر ان کو موت کے منہ میں اتارے۔قرآن کریم میں ارشاد ہواہے کہ”جس نے کسی ایک کی جان بچائی اس نے تمام انسانوں کی جان بچائی”۔اسلام نے تو اس قیدی کو جس نے ہم پر زیادتی کی کے ساتھ بھی خوش معاملگی اور ان کو کھاناکھلانے اور بنیادی حقوق فراہم کرنے کا حکم دیا اور اس کو باعث اجرو ثواب بھی قراردیا۔

مغرب نے کہا کہ مسلمان اپنے دعوتی منہج کو تبدیل کریں تاکہ انتہاپسندی و دہشت گردی ختم ہوسکے اور ہم نے ان کی بات پر عمل کیا۔آج وہ دن آچکا ہے کہ خود مغرب کے لوگ انتہاپسند و دہشت گرد بن چکے ہیں۔پریشان کن بات تو یہ ہے کہ مغرب کے لوگ صرف مسلمانوں کا خون ہی نہیں بہارہے۔ بلکہ ان کامیڈیا جھوٹی و گھڑی ہوئی باتیں کرکے منافرت کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں ۔یہ سب اس لیے ہورہاہے کہ مغرب میں اسلام دشمنی کی تعلیم دینے کی وجہ سے ہے۔اگر مغرب کی یہی حالت اور کیفیت بدستور جاری رہی تو بلآخر دنیا خاک و خون میں لت پت ہوجائے گی۔پھر اس انتہاپسندی و دہشت گردی کو ختم کرنا ممکن نہیں رہے گا۔آج ہم مغرب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ انتہاپسندی و دہشت گردی کی تعلیم دینا بند کردیں۔

مغرب پر لازم ہے کہ وہ افراط و تفریط کے پیروکار وں کے راستے میں لوہے کی دیوار کھڑی کردیں۔دہشت گردی کے واقعات پر صرف معذرت کرلینا کافی نہیں بلکہ حقیقی معذرت جبھی قابل قبول ہوگی جب مغرب اپنے باشندوں کے دلوں میں سے تنگ نظری و مسلم دشمنی کی سوچ کو نکال باہر کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے گا۔معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمان اس وقت دنیا کی قییادت نہیں کررہے بلکہ وہ تو اپنے جائز حقوق کے حصول اور اس کی حفاظت کے لیے بھیک مانگ رہے ہیں۔ اگر مسلمانوں کے دلوں میں نفرت یا حقد و کجی ہوتی تو کبھی بھی غیر مسلموں کے ساتھ تعاون نہ کرتے۔مغرب میں مسلمانوں کے خلاف جاری دہشت گردی کی اس مہم پراقوام مغرب کی خاموشی کے کیا معنی ہیں؟

ہم انسانیت کی نفع مندی کی خاطر ہر طرح کا تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں اور ہم تو رواداری و الفت و محبت کے پیمبر ہیں۔مغرب سے یہ مطالبہ ضرور کرتے ہیں کہ وہ امن و سکون کے ساتھ رہنے کا انسانیت کو موقع عنایت کریں۔مغرب اپنے رویہ تبدیل کرتے ہوئے دوسروں کا احترام کرنا سیکھ لے۔دوسروں کے مذاہب کا لحاظ و پاس رکھیں اور ان کے خلاف سازشوں کا بازار بند کردیں۔تاریخ کے روشن صفحات گواہ ہیں کہ اسلام واحد دین حق ہے کہ جو رواداری و الفت و محبت کا پیغام و درس دیتاہے،مسلمانوں کے علاوہ کوئی بھی اس پر ایمان نہیں رکھتا۔اور اگر پھر بھی کسی کو گمراہ کرتاہے اسلام و مسلمانوں کے خلاف اور جھوٹی تہمتیں لگانی ہیں تو اس کا حساب تاریخ خود ہی لے گی۔

Dr Khalid Fuaad Al Azhari

Dr Khalid Fuaad Al Azhari

تحریر: ڈاکٹر خالد فواد الازہری