ہمارے دین نے تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی بہت زور دیا ہے۔ اگر محض تعلیم ہو اور تربیت نہ ہو تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایسی تعلیم بجائے فائدے کے نقصان پہنچاتی ہے اور ایسی تعلیم سے منفی قوتیں فروغ پاتی ہیں۔ ایک وقت وہ تھا جب ہم دنیاکے بیشتر حصے پر غالب تھے اور فکر و دانش کی درس گاہوں میں ہماری حکمرانی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی مائوں نے ان کی تربیت اس انداز پر کی تھی کہ وہ دنیاکے امام بنے اور دنیا والوں کو امامت وقیادت کے خطوط مرتب کر گئے۔ سردست ہم صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کی سیرت طیبات کے روشن ورق آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔ یہ کہنا بالکل بجاہے کہ ابتدائے اسلام کا عہداس لیے خیرالقرون تھا کہ اس وقت کی مائوں نے اپنے اپنے بچوں کواعلیٰ اخلاق سکھائے تھے ، ان کی کردار سازی کی تھی اور ان میں حسن وقبح کی تمیز پیدا کی تھی۔ یہ اسی تربیت کی برکات واثرات تھے کہ خیرالقرون سے ملحق زمانے اور پھر اس کے بعدآنے والی زمانے کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیرالقرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم فرمایا تھا۔
حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہاکاانداز تربیت خلیفۂ اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس اندازمیں تربیت فرمائی کہ وقت کے ظالم وجابر بادشاہ کے سامنے بھی اپنے موقف سے ایک قدم ہٹنے کے لیے بھی تیارنہ ہوئے۔ چنانچہ انہوں نے سلطنتِ بنو امیہ کافرماں روا (یزید) جو سرتاپا فسق وفجور میں مبتلا تھا، اس کی بیعت سے صاف انکار کر دیا۔ وہ مکہ میں اقامت گزیں ہوئے اور وہیں سے اپنی خلافت کی صدا بلند کی چوں کہ آپ کی عظمت وجلالت کا ہر شخص معترف تھا اس لیے تمام دنیاے اسلام نے اس صدا پر لبیک کہا اور ملک کا بڑا حصہ ان کے علَم کے نیچے آگیا لیکن جب عبدالملک بن مروان تخت نشین ہوا تو اس نے اپنی حکمتِ عملی سے بعض صوبوں پر قبضہ کرلیا اور حضرت عبداللہ بن زبیر کے مقابلے کی تیاریاں کیں۔ شامی لشکر نے کعبۂ مقدسہ کا محاصرہ کیا تو حضرت عبداللہ اپنی والدہ کے پاس آئے اس وقت وہ بیمار تھیں۔ حال دریافت کیا تو بولیں کہ بیمار ہوں۔ کہا: آدمی کو موت کے بعد آرام ملتا ہے۔ حضرت اسماء نے فرمایا : شاید تمہیں میری موت کی تمنا ہے لیکن میں ابھی مرنا پسند نہیں کرتی۔ میری تمنا یہ ہے کہ تم لڑ کر قتل کیے جاؤ اور میں صبر کروں یا تم کامیاب ہو اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔” حضرت عبداللہ بن زبیر ہنس کر چلے گئے۔ شہادت کا موقع آیا تو دوبارہ ماں کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صلح کے تعلق سے مشورہ کیا۔ بولیں: بیٹا! قتل کے خوف سے ذلت آمیز صلح بہتر نہیں اس لیے کہ عزت کے ساتھ تلوار مارنا ذلت کے ساتھ کوڑا مارنے سے بہتر ہے۔
حضرت اسماء کی تربیت کاہی نتیجہ تھا کہ موت کے سائے کو دیکھ کر بھی ان کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی اور انہوں نے جام شہادت نوش کر لیا۔ حضرت صفیہ کاانداز تربیت حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی تربیت نہایت عمدہ طریقے سے کی۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کا فرزند بڑا ہو کر ایک نڈر سپاہی بنے اسی لیے وہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے سخت محنت و مشقّت لیتیں اور وقتاً فوقتاً زجرو توبیخ اور زدوکوب سے بھی گریز نہ کرتیں۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے چچا نوفل بن خویلد ایک دن بھتیجے کو ماں کے ہاتھوں پٹتے دیکھ کر بے تاب ہو گئے اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو سختی سے ڈانٹا کہ اس طرح توتم بچے کو مار ڈالو گی۔ نوفل نے بنو ہاشم اور اپنے قبیلے کے بعض دوسرے لوگوں سے بھی کہا کہ وہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو بچے پر سختی کرنے سے روکیں۔ جب ان کی سخت گیری کا چرچا عام ہوا تو انہوں نے لوگوں کے سامنے یہ رجز پڑھا۔
مَنْ قَالَ اِنِّی اَبْغَضُہ فَقَدْ کَذَبَ۔ اِنَّمَا اَضْربُہ لِکَیْ یَلُّبَّ ( ترجمہ)جس نے یہ کہا کہ میں اس (زبیر)سے بغض رکھتی ہوں اس نے غلط کہا ۔میں اس کو اس لیے پیٹتی ہوں کہ عقل مند ہو۔ وَیَھْزَمُ الجِیْشَ وَیَاتِی السَّلَبَ (ترجمہ)اور فوج کو شکست دے اور مالِ غنیمت جمع کرے۔ یہ حضرت صفیہ کی تربیت کرنے کااپنا انداز تھا۔انہوں نے اپنے بیٹے کو شجاعت وشہامت کے سبق سکھائے اور اسلام کے خلاف تلواراٹھانے والے لوگوں کے مقابلے کے لیے فن سپہ گری کاکے اسباق پڑھائے۔ یہ انہیں کی تربیت کا اثر تھا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے الاصابہ میں لکھا ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو لڑکپن میں ایک جوان اور قوی آدمی سے مقابلہ پیش آگیا۔ انہوں نے ایسی ضرب لگائی کہ اس کا ہاتھ ٹوٹ گیا۔ لوگوں نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی تو انہوں نے معذرت کے بجائے لوگوں سے سوال کیا:تم نے زبیر کو بہادری میں کیسا پایا: ”بہادر یا بزدل؟”غرض ماں کی تربیت کا یہ اثر ہوا کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ بڑے ہو کر ایک دلاور، صف شکن اور ضیغمِ ِشجاعت بنے۔ مبدأ فیض نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو یوں بھی فطرتِ سعید سے نوازا تھا ، ماں کی تربیت نے ان کی خوبیوں کو اور بھی چمکادیا اور ان کے دل میں اسلام اور داعیِ اسلام کی محبت کوٹ کوٹ کر بھردی۔
حضرت عائشہ کاانداز تربیت مؤطا امام مالک میں ہے کہ حضرت حفصہ بنت عبد الرحمن حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ وہ ایک باریک ڈوپٹہ اوڑھے ہوئی تھیں۔ حضرت عائشہ نے اس کو پھاڑ دیا اور ایک موٹی اوڑھنی ان پر ڈال دی۔دراصل یہاں حضرت عائشہ نے ان کاباریک دوپٹہ اس لیے پھاڑدیاکہ وہ انہیں بتانا چاہتی تھیں کہ کہ حیااسلام کاایک حصہ ہے۔ باریک دوپٹے سے حیاکے تقاضے پورے نہیں ہوتے بلکہ اس سے بے حیائی کوفروغ ملتاہے۔ حضرت حفصہ بنت عبد الرحمن کوباریک دوپٹے کی جگہ موٹادوپٹہ عطا کر دینا ایک طور پر ان کی تربیت تھی۔ حضرات گرامی یہ بھی تربیت کابھی ایک انداز ہے کہ کچھ کہے بغیر غلط چیز کواچھی چیز سے بدل دیا جائے۔
Hazrat Aisha
حضرت عائشہ کی تربیت کاایک اندازیہ بھی ملاحظہ کیجیے کہ انہوں نے ایک بار اپنا مکان حضرت امیر معاویہ کے ہاتھ فروخت کر دیا اور اس سے حاصل ہونے والی رقم تمام غریبوں میں تقسیم کر دی۔ حضرت عبد اللہ بن زبیر نے ایک مرتبہ حضرت عائشہ کے پاس ایک لاکھ درہم بھیجے۔ انہوں نے اسی وقت سب غریبوں اور محتاجوں میں تقسیم کر دیا۔ اسی وقت فوراً حضرت عبد اللہ بن زبیرکے سامنے ساری رقم صدقہ کر دینا دراصل عبداللہ ابن زبیر کی تربیت کرنا ہے کہ صدقہ کرنا اور غریبوں ومحتاجوں کی حاجتیں پوری کرنا اسلامی طریقہ ہے۔
اسی طرح کاایک واقعہ اور ہے۔ حضرت عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ کے پاس ستر ہزار دراہم کہیں سے آئے تو انہوں نے میرے سامنے اسی وقت ساری رقم اللہ کے راستے میں خرچ کردی اور آخر میں اپنا دوپٹہ جھاڑ دیا۔ ایک دن حضرت عائشہ روزے سے تھیں اور گھر میںر وٹی کے سوا کچھ نہ تھا، اتنے میں ایک حاجت مند نے آکر سوال کیا، انہوں نے باندی کو حکم دیا کہ یہ روٹی اس حاجت مند کو دے دو۔ باندی نے کہا کہ شام کو افطار کس چیز سے کریں گی تو آپ نے کہا پہلے اسے دے دو۔ جب شام ہوئی تو کسی نے گوشت ہدیہ میں بھیجا تو حضرت عائشہ نے فرمایا کہ دیکھو اللہ نے روٹی سے بہتر نعمت عطا فرمائی ہے۔
(مؤطا امام مالک) ایک مرتبہ چند فقرا جن میں عورتیں بھی تھیں، ان کے پاس آکر سوال کرنے لگے۔ اس وقت ام الحسن بھی بیٹھی ہوئی تھیں۔ انہوں نے حاجت مندوں کو ڈانٹا تو ام سلمہ نے کہا ہمیں اس کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ اس کے بعد اپنی باندی سے کہا کہ ان کو کچھ دے دو۔ اگر کچھ نہ ہوتو ایک ایک کھجور ہی ان کے ہاتھ میں رکھ کر انہیں رخصت کردو۔ (سیر الصحابیات: ٧٠) ضعیف العمرصحابیہ حضرت خنساء کااندازتربیت سیّدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں جنگ قادسیہ کا شمار عراق عرب کی سرزمین پر لڑی جانے والی نہایت خوں ریز اور فیصلہ کن جنگوں میں ہوتا ہے۔ اس لڑائی میں سلطنتِ ایران نے اپنے دو لاکھ آزمودہ کار جنگ جُو اور تین سو جنگی ہاتھی مسلمانوں کے مقابل لا کھڑے کیے۔
دوسری طرف مجاہدینِ اسلام کی کل تعداد صرف تیس اور چالیس ہزار کے درمیان تھی۔ ان میں سے بعض مجاہدین کے ساتھ ان کے اہل و عیال بھی جہاد میں حصہ لینے کے لیے قادسیہ آئے تھے۔ اس موقع پر ایک ضعیف العمر خاتون بھی جذبۂ جہاد سے سرشاراپنے چار جوان فرزندوں کے ساتھ میدانِ جنگ میں موجود تھیں۔ شب کے ابتدائی حصے میں جب ہر مجاہد آنے والی صبح کے ہولناک منظر پر غور کر رہا تھا۔ اس خاتون نے اپنے چاروں فرزندوں کو اپنے پاس بلایا اور ان سے یوں خطاب کیا: میرے بچو!تم اپنی خوشی سے اسلام لائے اور اپنی خوشی سے تم نے ہجرت کی۔ اس ذات لا یزال کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ جس طرح تم ایک ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے اسی طرح تم ایک باپ کی اولاد ہو۔ میں نے نہ تمہارے باپ سے خیانت کی اور نہ تمہارے ماموں کو ذلیل و رسوا کیا۔ تمہارا نسب بے عیب ہے اور تمہارا حسب بے داغ۔ خوب سمجھ لو کہ جہاد فی سبیل اللہ سے بڑھ کر کوئی کارِ ثواب نہیں۔آخرت کی دائمی زندگی دنیا کی فانی زندگی سے کہیں بہتر ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُواْ اصْبِرُواْ وَصَابِرُواْ وَرَابِطُواْ وَاتَّقُواْ اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ترجمہ:اے مسلمانو!صبر سے کام لو اور ثابت قدم رہو اور آپس میں مل جل کر رہو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو تاکہ مراد کو پہنچو۔ (سورۂ آل عمران)کل اللہ نے چاہا اور تم خیریت سے صبح کرلو تو تجربہ کاری کے ساتھ اور خدا کی نصرت کی دعا مانگتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑنا اور جب تم دیکھو کہ لڑائی کا تنور خوب گرم ہو گیا اور اس کے شعلے بھڑکنے لگے تو تم خاص آتشدانِ جنگ میں گھس پڑنا اور راہِ حق میں دیوانہ وار تلوار چلانا۔ ہو سکے تو دشمن کے سپہ سالار پر ٹوٹ پڑنا۔ اگر کامیاب رہے تو بہتر اور اگر شہادت نصیب ہوئی تو یہ اس سے بھی بہتر کہ آخرت کی فضیلت کے مستحق ہوگے۔”
History Of Islam
چاروں نونہالوں نے یک زبان ہو کر کہا: اے مادر محترم! ان شاء اللہ ہم آپ کی توقعات پر پورے اتریں گے اور آپ ہمیں ثابت قدم پائیں گی۔” حضرت خنساء نے اپنے چاروں بچوں کی اس طور پر تربیت فرمائی کہ انہوںنے اسلام کے تحفظ اور بقاکے لیے اپنی جان کی بھی بازی لگادی اوراپنی ماں سے کیے گئے وعدے سے بالکل بھی منحرف نہ ہوئے۔ تاریخ اسلامی میں ایسے ہزاروں واقعات ہیں جن سے صحابیات کی حیات طیبہ کے تربیتی پہلووئوں کا تذکرہ ملتاہے۔ ان میں صحابیات کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہن نے اپنے اپنے طور پر اپنے سے چھوٹوں، شاگردوں، بچوں اوراپنے ہم عصروں کی تربیت فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب خصوصاً ہماری مائوں اور بہنوں کو صحابیات کے نقوش حیات پر عمل کرنے کی توفیق ارزاں فرمائے۔
تحریر:صادق رضامصباحی،ممبئی رابطہ:09619034199 ای میل:[email protected]