تحریر : عائشہ تنویر بچپن ایک ایسا سنہرا دور جس کی یاد سب کو بے فکری کے دور میں لے جاتی ہے اور زندگی کے جھمیلوں سے ہاتھ چھڑا کر پیچھے جانے کی خواہش دل میں جنم لیتی ہے۔ آج جب اکیسویں صدی کی دوسری دہائی بھی ختم ہونے والی ہے۔نت نئی ایجادات نے زندگی کو آرام دہ کر دیا ہے اور دور بیٹھنے والوں کو پاس لا بٹھایا ہے۔ تو ترقی کی اس دوڑ میں شامل وطن عزیز میں بچوں کے حقوق کے لئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں۔ ہمارے بچے ملک کا مستقبل ہیں ، قوم کے معمار ہیں، ہماری امید ہیں۔ان کی تعلیم قومی فریضہ ہے اور ملکی ترقی کی ضامن بھی۔اس پر بہت کچھ لکھا جاتا رہا ہے اور انفرادی و اجتماعی سطح پر عمل کی کوشش بھی کی جاتی رہی ہے لیکن اب سوچنا یہ ہے کہ کیا ان ننھے پھولوں کو صرف تعلیم کی ہی ضرورت ہے ؟ کیا ہم اپنے بچوں کو وہ بچپن دے رہے ہیں جس کی یاد ایک مسکان بن کر ہونٹوں پر ٹہر جاتی ہے۔
مملکت خداداد پاکستان میں تعلیم کی شرح بہت کم اور غربت کی سطح بہت زیادہ ہے۔ ملک میں بچوں کی ایک بڑی تعداد اپنا بچپن اسکول جانے یا تعلیم حاصل کرنے کی بجائے رزق کے حصول کے لئے گالیاں کھاتے سڑکوں پر گزار دیتی ہے۔ ان بچوں کے لئے خوش رنگ کھلونوں کے بجائے سیاہ حروف والی سفید کتابیں ہی کشش کا باعث ہیں۔ بظاہر ملک میں چائلڈ لیبر کے قوانین موجود ہیں لیکن جب بنیادی ضروریات ہی پوری نہ ہوں، کھانے کو کچھ نہ ہو تو تعلیم ایک عیاشی بن جاتی ہے۔ کیا ہم نے کوئی ایسا راستہ نکالا کہ یہ بچے اپنے گھروں کے کماو ¿ پوت بننے کے ساتھ تعلیم کی عیاشی بھی کر سکیں ۔ وہ اپنے محنت بھرے بچپن سے اپنی زندگی میں کامیابیوں کی داستان لکھ سکیں۔ان کی خواہش حسرت نہ بنے۔
اس کے بعد ایک طبقہ وہ ہے جو والدین بساط بھر محنت کر کے مناسب کماتے ہیں اور اپنی آمدنی بہت بڑا حصہ اپنے بچوں کی تعلیم پر خوش آئند مستقبل کی آس میں خرچ کرتے ہیں۔ جگہ جگہ کھلنے والے نجی ادارے والدین کو متاثر کرنے کے لئے گھر کے کام اور پراجیکٹ کے نام پر بچوں پر غیر ضروری بوجھ ڈال دیتے ہیں۔ والدین اور بچوں کا پورا دھیان گریڈز پر ہوتا ہے۔ مقابلے کی اس دوڑ میں کیا سیکھا اہم نہیں ہے بلکہ جماعت میں آگے رہنا ضروری ہے۔ چاہے اس کے لئے تمام صحت مندانہ مشاغل چھوڑ کر محض کتابی کیڑا بننا پڑے۔ بچے پھر بچے ہیں ۔ تفریح ان کی ضرورت ہے۔ اپنے بھاگتے دوڑتے لمحوں سے وقت نکال کر ، مقابلے کی دوڑ کو نظر انداز کرتے جب بچے اور والدین کچھ وقت کھیل کود کے لئے نکالتے ہیں تو ان پر انکشاف ہوتا ہے کہ ایسا ممکن ہی نہیں۔ امن و امان کے مسائل، بچوں کے اغوا یا ان کے ساتھ غلط کاری کا خوف، ٹریفک کا اڑدھام بچوں کے باہر نکل کر کھیلنے میں حائل ہے۔ کھیلنے کے میدان جو پہلے ہی تعداد میں بہت کم تھے اب تقریباً ناپید ہیں۔حکومتی سطح پر تیراکی ، ہاکی، کرکٹ کسی کھیل کے سکھانے کا انتظام نہیں۔گنجان آباد شہروں کے چھوٹے چھوٹے گھر میں کھلنا ممکن نہیں سو اپنی تفریح کے اوقات بچے گھروں میں بند دور جدید کی ایجادات ٹی وی، ٹیبلٹ اور موبائل کے ساتھ گزار دیتے ہیں۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو صحت مند مند تفریح کا فقدان ہے۔ ایک طرف نظام تعلیم اور طریقہ تعلیم کتابوں کا بوجھ لاد کر ذہنی مشکل پیدا کرتا ہے، دوسری طرف گھر میں بند رہنے سے جسمانی صحت خراب ہوتی ہے۔ ٹی وی، کارٹونز ، وڈیو گیمز بچوں کو خیالی دنیا میں لے جاتے ہیں اور انہیں اپنی تہذیب سے دور کر دیتے ہیں۔ تہذیب سے یہی دوری ان کے ذہنوں کا فتور بن کر انہیں عشق و محبت کی کہانیوں میں الجھاتی ہے۔ جسمانی محنت سے دور یہ بچے اپنی اقدار سے بھی دور ہو کر بیمار جسم و ذہن کے مالک بنتے ہیں۔ یہی بچپن سے محروم بچے ہمارا کل ہیں؟؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر سطح پر بچوں کی تعلیم کے ساتھ ان کے لئے صحت مندانہ مشاغل کو بھی فروغ دیا جائے ۔ علاقائی سطح پر لائیبریری اور معلومات عامہ کے مقابلے ہوں تا کہ ان کی سوچنے کی صلاحیت بیدار ہو اور شعور پیدا ہو۔ہر علاقے میں کھیل کا میدان، سوئمنگ اور کراٹے کلب ہوں جو انہیں مل کر رہنا اور گروہ میں کام کرنا اور اپنے کپتان کی بات ماننا سکھائیں۔ ہمیں اپنے کل کے لئے چند اسناد یافتہ جوان نہیں بلکہ ایک صحت مند ذہن کی مالک جوانوں کی جراٰت مندانہ فوج چاہئے،۔ جو ملک و قوم کے مفاد میں سوچے اور عملی اقدام کرنے کی طاقت رکھے اور اس کے لئے بنیاد سے کام بہت ضروری ہے۔