تحریر : شمائلہ عادل گزشتہ ہفتے پاکستان کے وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے لاہور میں دارالسلام ایجوکیشنل کمپلیکس کا سنگ بنیاد رکھا۔اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ دین سے دوری بنیادی مسائل کی اہم وجہ بنی ہے۔ موجودہ حالات میں دینی و دنیاوی تعلیم کا حصول وقت کا اہم تقاضا ہے۔دارالسلام ایجوکیشنل کمپلیکس دین و دنیا کی تعلیم حاصل کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا۔ وفاق کی جانب سے یہ اقدام قابل تحسین بھی ہے اور اس سے حصول تعلیم کا مقصد بھی واضح ہورہا ہے۔ وفاقی وزیر کی افتتاحی تقریب پر ان کے خطاب کے الفاظ پڑھ کر مجھے ڈھائی سالہ ریحان یاد آگیا۔ ریحان سے جب پوچھا گیا کہ بیٹا پڑھ لکھ کر کیا بننا ہے تو معصوم سے بچے نے فوراً کہا میں پڑھ لکھ کر انجینئر بنوں گا اور میرے پاس بہت سارے پیسے ہوں گے۔
ریحان کے بڑے بھائی نے پوری رات پیپرز کے لیے رٹا لگایا پوچھا کہ کیوں پڑھ رہے ہیں تو فورا کہا کہ ڈاکٹر بنوں گا۔ یہ منظر اب ہر گھر میں دکھائی دیتا ہے۔ ماں باپ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اسی لیے اسکول بھیجتے ہیں اور ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں تاکہ ان کی بنیادی تعلیم اچھی ہو اور اچھے کالج اور یونیورسٹی میں داخلہ ہو اور کوئی اعلی ڈگری حاصل کر سکیں جو ان کے لیے فخر کا باعث ہو اور اس کے سبب ملنے والی اچھی جاب ان کے مستقبل کی ضامن ہو۔ دور جدید میں جو نظام تعلیم رائج ہے وہ محض ذریعہ روزگار ہے۔ ایسی تعلیم جس پر محنت، دولت اور وقت اس لیے صرف کیا جاتا ہے کہ زندگی کی بیش از بیش مادی فوائد اور آسائشیں حاصل کی جاسکیں جبکہ مسلم معاشرے میں ایسی تعلیم کو تعلیم ہی نہیں گردانہ جاتا جو انسان کی تربیت نہ کرے اسکا اخلاق نہ سنوارے محب وطن نہ بنائے محب اسلام نہ بنائے۔
مگر یہاں پر مسئلہ یہی ہے کہ ہمارا معاشرہ مکمل طور پر اسلامی معاشرہ نہیں رہا بلکہ مغرب زدہ دکھائی دیتا ہے اسی لئے نوجوان نسل مغرب سے متاثر ہے اور ڈگری حاصل کر لینے کو اپنی کامیابی تصور کرتی ہے۔ دراصل مغربی نظام تعلیم نے سب سے بڑا ظلم یہ ڈھایا کے مسلمانوں کو ان کے اسلاف کے کارناموں سے محروم کر دیا ان کے شاندار ماضی سے انہیں کاٹ دیا۔ وہ فریب خوردہ شاہین جو پلا ہو کرگسوں میں اسے کیا خبر کے کیا ہے راہ و رسم شاہبازی
Education
آج کی نسل جو انڈین فلمیں اور گانے دیکھ کر اور سن کر پرورش پاتی ہے وہ اپنے قومی ہیروز سے ناواقف ہے انہیں اگر اقبال کے شاہین بنانا ہے تو نصاب میں تاریخی اسباق کو شامل کیا جائے اور اساتذہ بھی خلوص کے ساتھ اپنا فرض ادا کریں تعلیم کے ساتھ تربیت بھی دیں تو آج بھی ہماری قوم جو ذہانت سے بھرپور ہے اپنا اصل مقام حاصل کر سکتی ہے ۔جو نوجوان محض یہ سوچ لے کر اعلی تعلیم حاصل کریں کہ اس کے مکمل ہونے پر ہمیں اچھی نوکری مل جائے تو مقصد زندگی صرف کھانا اور کمانا رہ جائے گا جبکہ رزق کا وعدہ رب کائنات نے کر رکھا ہے تو فکر کیوں؟ہاں اس کے لیے محنت ضرور کریں مگر اسے مقصد زندگی نہ بنائیں صرف پیسے کے پیچھے نہ بھاگیں بلکہ جو کام کریں محنت اور دیانت سے کریں ملک کی خدمت اور بھلائی کے لیے کریں زندگی کو دین کے اصولوں کے مطابق گزارنے کی کوشش کریں دنیا ی کامیابیاں خود آپ کے پاس چل کر آئیں گی۔
پھر ڈھائی سالہ ریحان جب سولہ یا سترہ سال بعد اپنی باجی کی طرح تعلیم کا اختتام کرے گا تو نہ صرف معاشرے کے لئے ایک کارآمد شخص ثابت ہو گا بلکہ ایک کامیاب زندگی زندگی گزارے گا۔ جس نے اپنے تمام گزشتہ سالوں میں صرف پچاس ساٹھ ہزار روپے کمانے کے گر ہی نہیں سیکھے ہوں گے بلکہ لوگوں کے دل جیتنا اور خدا کو راضی کرنے کے ہنر بھی سیکھ چکا ہو گا جس سے اس کے جنت کے اکاؤنٹ بھی نیکیوں سے بھرے ہوئے ہو نگے۔
Life
یاد رکھیے دنیاوی تعلیم سے بہتر زندگی تو مل سکتی ہے مگر اس سے صرف حصول پیسے کو مقصد حیات بنانا درست نہیں ہوگا۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ معیاری تعلیم میں دین و دنیا دونوں کو مقدم رکھیں تاکہ اس دنیا میں بھی اورہمیشگی والی دنیا دونوں میں کامیاب و کامران ہوسکیں۔