تحریر : عارف رمضان جتوئی کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں میوزک کنسرٹ منعقد کیا گیا تھا۔ جس میں مختلف اہم موسیقاروں کو مدعو کیا گیا تھا۔ یہ کنسرٹ ایک تعلیمی ادارے کی جانب سے کرایا جارہا تھا۔ جس کی مناسبت سے وہاں پر کالجز اور یونیورسٹیز سے بڑی تعداد میں لڑکیاں اور لڑکے شریک تھے۔ کچھ ہی لمحوں میں ہال کھچا کھچ بھر گیا۔ موسیقار اپنے اپنے انداز میں سریں بکھیرتے رہے۔ ہال کبھی تیز تو کبھی ہلکے میوزک سے مسلسل گونج رہا تھا۔ تاہم اس میوزک کے شوخ ہونے اور کم ہونے کے ساتھ ساتھ شریک محفل طلبہ و طالبات نوجوانوں کا جوش و خروش بھی کبھی بڑھتا تو کبھی ٹھنڈا پڑ جاتا تھا۔ میوزک کنسرٹ کے مہمان خصوصی کو روایت کے مطابق سب سے آخر میں موقع دیا گیا۔
اسٹیج پران کی آمد کے ساتھ ہی ہال میں خاموشی چھا گئی اور پھر ایک آواز کے ساتھ پورا ہال سیٹیوں، تالیوں اور شور سے گونج اٹھا۔ اس شور کرنے میں وہاں پر موجود تمام مرد و خواتین نوجوان پورا پورا حصہ لے رہے تھے۔ انتہائی تیز میوزک کی آواز دھیرے دھیرے ہلکی ہونے لگی، موسیقار جوں ہی خاموش ہوا پورا ہال ایک مرتبہ پھر سیٹیوں، تالیوں اور ہلڑبازی سے گونج اٹھا۔ ہلڑ بازی ایسی ہوئی کے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کون کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔ نوجوان لڑکیاں اور لڑکے تھے اور ایک طوفان بدتمیزی تھا۔ کافی دیر بعد دو لڑکیاں ہانپتیں کانپتیں دھکے کھاتیں بیرونی گیٹ سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئیں۔ ان کی ظاہری حالت کافی ابتر لگ رہی تھی اور وہ کافی پریشان بھی دیکھائی دے رہی تھیں۔ ان کی پریشانی کی ایک وجہ تو ظاہر تھی کہ وہ اپنے گھر سے لیٹ ہوچکی تھیں، جبکہ دوسری وجہ شاید ان کے ساتھ کنسرٹ کے مقام پر کچھ چھیڑ خانی ہوئی تھی اور وہ اس وقت بہت ہی پریشان نظر آرہی تھیں۔ اتنے میں ایک رکشہ والے کو روک کر وہ عجلت میں وہاں سے روانہ ہوگئیں۔ جبکہ میوزیکل شو کے مقام پر تاحال رقص و سرور چل رہا تھا اور وہاں کچھ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اب بھی ڈانس کر رہے تھے۔
گھر سے تعلیم حاصل کرنے کے لئے نکلنے والی وہ دونوں لڑکیاں شکل و صورت سے کسی امیر گھر کی معلوم ہوتی تھیں تاہم حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ ایک کے والد ٹیکسی چلاتے تھے جبکہ دوسری کے والد ایک اسکول میں ملازمت کرتے تھے۔ ابھی ان دو لڑکیوں کی بات ہورہی تھی کہ اتنے میں مجھے ایک اور باپ یاد آگیا جو تقریباً ہر روز صبح فجر کے وقت اٹھ کر گھر کے قریب ایک اسپتال کے ٹھنڈے، میٹھے اور فلٹر شدہ پانی کے لگے قولر سے یہ کہہ کر پانی بھرتا تھا کہ ان کے بچے کھارا پانی نہیں پی سکتے۔ تاہم ایک روز یہ بات آشکارہ ہوئی کہ دراصل وہ پانی اپنی نوجوان یونیورسٹی میں پڑھنے والی بیٹی کے سر کے بال دھونے کے لئے بھرتا تھا کہ کہیں اس کی بیٹی کے بال اور چہرے کی رونقیں کھارے پانی کی وجہ سے ماند نہ پڑجائیں۔
Concert
ایک باپ جو اپنی بیٹی کی تعلیم کے لئے دن بھر ٹیکسی چلاتا ہے اور وہ یہ امید رکھتا ہے کہ اس کی بیٹی پڑھ لکھ کر اپنا مستقبل سنوار جائے گی اور اس کے باپ کا نام روشن کر جائے گی۔ ایک باپ وہ جو سارا سارا دن بچوں کو پڑھاتا ہے اور پیٹ کو کاٹ کر اپنی بیٹی کی تعلیم و تربیت پر لگا دیتا ہے۔ ایک وہ باپ جو اپنی بیٹی کے لئے صبح سویرے اٹھ کر اس کے لئے پانی بھر کر لاتا ہے تاکہ وہ اچھے سے اپنی تعلیم کے حصول کے لئے گھر سے جائے، جب ان تمام والدین کو اپنی بیٹیاں کسی تعلیمی ادارے کی بجائے ڈانس پارٹیوں میں ملیں گی تو ناجانے ان کی کیا حالت ہوگی۔
کیوں احساس نہیں ہوتا ان بیٹیوں کو اپنے والدین کا کہ وہ انہیں کس مقصد کے لئے بھیجتے ہیں اور وہ کیا کیا حاصل کر تی پھر رہی ہیں۔ کھیلنا کودنا، تفریح اور دیگر دلچسپ سرگرمیوں میں حصہ لینا وقت کی ضرورت ہے تاہم اس قسم کی سرگرمیوں میں جانا شاید یہ والدین کی تربیت اور ان کے آپ پر اعتماد کی توہین کرنا ہے اور خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ وہ کیوں نہیں سوچتے کہ وہ نوجوان ہیں اور یہ وہ وقت ہے جسے فضولیات میں ضائع کرنے کی بجائے اپنے بنیادی مقاصد پر نظر رکھتے ہوئے کچھ حاصل کرنا چاہیے۔
آج مغرب اور پڑوسی ملک انڈیا کے کلچر سے مرغوب ہمارے نوجوان اگر قسم غیر محفوظ اور مخلوط محافل کی زینت بنتے رہیں گے تو اللہ نہ کرے ایک وقت آئے گا جب ہمارے یونیورسٹیاں ویران اور میوزیکل انسٹیٹیوٹ بھرے ہوئے ملیں گے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی تعلیم و تربیت پر توجہ دیں اور غیر ضروری سرگرمیوں سے پرہیز کریں۔