تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ کسی بھی ریاست کی پہلی ترجیح تعلیم ہوتی ہے کیونکہ تعلیم کے بغیر ترقی اور خوشحالی ناممکن ہے۔ پاکستان کو آزاد ہوئے تقریبائ70سال ہونے کو ہیں لیکن بد قسمتی سے پاکستان جاگیردارانہ نظام اور جاگیردارانہ ذہنیت کی وجہ سے تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ رہا ہے۔ میں نے گزشتہ اپنے کالم میں تعلیمی نظام کی بد حالی کا ذکرکیا تھا۔اور آج اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ق نے تصدیق کردی ہے۔
اس سلسلہ میںپاکستان مسلم لیگ ق کی رکن صوبائی اسمبلی خدیجہ عمرفاروقی نے پنجاب کے25ہزار سرکاری سکول بھوت بنگلوں کا منظر پیش کرنے اور ان میں کلاس روم نہ چاردیواری، پانی وبجلی سے محروم ہونے پر پنجاب اسمبلی میں تحریک التوائے کار جمع کرواد ی۔ تحریک التوائے کار جمع کروانے کے بعد صحافیوںسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پنجا ب کے تعلیمی بجٹ میں ہر سال کمی کی جارہی ہے جبکہ دوسری طرف تمام فنڈز من پسند منصوبوں پر خرچ کیے جارہے ہیں ۔پنجاب کے تعلیمی بجٹ میں4فیصد تک کمی ہوئی جبکہ دوسری طر ف72 فیصد سکول صاف پانی،19فیصد بیت الخلائ،18فیصد بجلی،21فیصد چاردیواری جبکہ 26فیصد اساتذہ سے بھی محروم ہیں ۔ رواں مالی سال نئے کمرے بنانے کیلئے 15ارب مختص ہوئے لیکن خرچ صرف2ارب47کروڑ ہوئے کلاس رومز پھر بھی نہ بن پائے باقی فنڈز غیر ضروری سکیموں پر خرچ ہوگئے ۔ سکولوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے بغیر معیار تعلیم بلند نہیں ہو گا۔
پنجاب کے سرکاری سکولوں میں بنیادی سہولیات نہ ہونے کے باعث معاملات انتہائی دگرگوں ہوگئے ہیں24ہزار966سرکاری سکولوں کا انتہائی برا حال ہے کلاس رومز ہیں نہ ہی چاردیواری ،بیت الخلاء نہ بجلی حتیٰ کہ کئی جگہ تو اساتذہ تک موجود نہیں ایسے میں حکومت کی طرف سے شعبہ تعلیم کی بہتری کے بڑے دعوے زمینی حقائق سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے۔ لاہور،گوجرانوالہ،لودھراں ،خانیوال اوکاڑہ، ساہیوال، پاکپتن، فیصل آباد، شیخوپورہ، سیالکوٹ، راجن پور، بہاولپور،بہاولنگر ،رحیم یار خان ،ملتان ،نارووال،لیہ، چکوال،راولپنڈی کے اضلاع میں سکولوں کے نئے کمرے نہ بن سکے جس کے باعث بچے کھلے آسمان یادرختوں تلے زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ سکولوں کی حالت زار بہتربنانے کیلئے سپیڈ پنجاب کی اصطلاح استعمال کی جائے اور فنڈز مختص کرکے سکولوں کی حالت بہتر بنائی جائے تاکہ نوجوان نسل کو بہتر تعلیمی سہولیات فراہم ہوسکیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اپوزیشن اور اساتذہ یونین کے احتجاج سیاسی ہوسکتے ہیں پھر بھی تعلیم نظام کا تحفظ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے، کیونکہ پاکستان میں تعلیم کی نگرانی وفاقی حکومت کی وزارت تعلیم اور صوبائی حکومتیں کرتی ہیں۔ وفاقی حکومت زیادہ تر تحقیق اور ترقی نصاب، تصدیق اور سرمایہ کاری میں مدد کرتی ہے ۔ آئین پاکستان کی شق 25ـA کے مطابق ریاست 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی معیاری تعلیم فراہم کرنے کی پابند ہے۔
پاکستان میں دنیا کے اکثر ممالک سے شرح تعلیم زیادہ ہے ۔لیکن پاکستان کا شمار ان ممالک میں بھی ہوتا ہے جہاں ایک بہت بڑی آبادی (تقریباََ 5 ملین سے زیادہ) سکولوں سے باہر ہے ۔پاکستانی بچوں میں سے صرف 80 فیصد ابتدائی تعلیم مکمل کرتے ہیں۔ معیار تعلیم کا نظام بنیادی طور پر برطانوی نظام سے اخذ کیا گیا ہے ۔آٹھ مضامین جو عام طور پڑھائے جاتے ہیں وہ اردو، انگریزی، ریاضی،جنرل سائنس، معاشرتی علوم،اسلامیات اور کمپیوٹر ہیں۔
پاکستان میں ثانوی تعلیم نویں جماعت سے شروع ہوتی ہے اور چار سال جاری رہتی ہے ۔ ان چار سالوں میں ہر سال کے اختتام پر طلباء کو ایک قومی امتحانی انتظام کے تحت ایک امتحان پاس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جس کا انتظام علاقائی بورڈ انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کرتا ہے ۔ نویں اور دسویں سال کی تکمیل پر طلباء کو سیکنڈری اسکول سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے جبکہ گیارہوں اور بارہوں سال کی تکمیل پر ہائر سیکنڈری اسکول سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے ۔ پاکستان ان اعداد و شمار کو 2015ء میں 10 فیصد کرنے اور 2020ء تک 15 فیصد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ماسٹر ڈگری پروگراموں میں زیادہ تر دو سال کی تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس کے بعد ماسٹرز ان فلاسفی (ایم فل) کیا جا سکتا ہے ۔ ایم فل کی تکمیل پر ڈاکٹر آف فلاسفی (پی ایچ ڈی) کی ڈگری کا حصول کیا جا سکتا ہے ۔کوالٹی سٹینڈرڈ ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ 2010 کے مطابق دنیا کی چوٹی کی 200 طرزیات جامعات میں دو پاکستانی جامعات بھی شامل ہیں۔گیارہ دیگر پاکستانی جامعات کے سمیت جامعہ ہندسیات و طرزیات، لاہور، خلائی ٹیکنالوجی کا انسٹی ٹیوٹ، جامعہ قائداعظم، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، جامعہ کراچی کا شمار یونیورسٹیوں کی عالمی رینکنگ کے مطابق بہترین1000 عالمی جامعات میں کیا جاتا ہے۔
ان تمام رپورٹس سے لگتاہے کہ حکومت وقت تعلیمی نظام کی تمام ترذمہ داری ختم کرکے اپنے دوستوں کو نوازنے میں مصروف ہے ۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جو قوم صرف مال ودولت کو تحفظ دینے میں مصروف ہوجاتی ہے ،تباہی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔