حکومت پنجاب تعلیمی شعبے میں نت نئے تجربے کرنے میں مصروف ہے۔ کبھی کمپیوٹر سسٹم لاگو کرتی ہے۔ کبھی یونیورسل ایجوکیشن کی سکیم چلاتی ہے، کہیں دانش سکول کی داغ بیل ڈالی جا رہی ہے تو کہیں انگریزی زبان کو لازمی قرار دئے جانے کے احکامات جاری کئے جا رہے ہیں۔ سالہا سال سے مصروف کار بہترین رزلٹ کے اداروں کو ختم کر کے مشکوک قسم کے اداروں کو ترقی دی جا رہی ہے جن کے رزلٹ پر پورے صوبے میں کوئی یقین نہیں کرتا۔
10 جولائی 1999 کو پنجاب اسمبلی سے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی کا بل پاس کروایا گیا تھا۔ جس کا مقصد سکول ایجوکیشن میں کچھ اس انداز سے تبدیلی لانی مقصود تھی کہ ہر ضلع میں ایک بورڈ آف ڈائریکٹر بنایا جائے جس کا سربراہ ایک سرکاری افسر ہو اور اس بورڈ میں والدین، ماہرین تعلیم اور اساتذہ پر مشتمل ایک ٹیم ہو گی جو ضلع میں حکومت کی تعلیمی پالیسیوں کو نافذ کرے گی اور انتظامات اور نگرانی کے عمل کو منظم کرے گی۔ یہ بورڈ آف ڈائریکٹر ضلع کے تعلیمی اداروں کے لئے مالی معاونت کا پلان بھی بنائے گا نیز پرائیوٹ تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن سمیت دیگر معاملات کنٹرول کرے گا۔
پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں کی 100 فیصد تعلیم کو یقینی بنانے کے علاوہ اساتذہ کی تقرری و تبادلے اور ٹریننگ ے امور بھی یہ ادارہ طے کرے گا۔یہ بھی تجویز کیا گیا کہ یہ ادارہ گریڈ 16 تک کے اساتذہ کی ضرورت کے مطابق بھرتی کا بھی ذمہ دار ہو گا۔ ضلع کے اندر گریڈ 19 تک کے آفیسرز کا تبادلہ بھی یہ ادارہ کر سکے گا۔ اداروں کا ادغام اور طلبا کی تعداد کے مطابق اساتذہ کی سیٹوں کی کمی بیشی بھی یہ ادارہ کر سکے گا۔ ہم نصابی سرگرمیوں اور امتحانات بھی اس ادارہ کے ذمہ ہوں گے۔
بظاہر دیکھنے میں کسی کو بھی اس قسم کے ادارے کے قیام اور اس کے اختیارات سے اختلاف نہ ہو۔ 1999 میں اس ادارہ کی ضرورت محسوس کی گئی لیکن عمل درآمد 2013 میں ہونے جا رہا ہے۔ 1999 تک اور اس کے بعد بھی 2001 تک تعلیمی نظام کا زیادہ تر انحصار ڈائریکٹر تعلیمات پر تھا جس کے ذمہ ڈویژن بھر کے تعلیمی امور ہوتے تھے جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ ڈائریکٹر کے دفتر میں دو ڈپٹی ڈائریکٹر، اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور ماتحت عملہ ہوتا تھا جو تبادلہ جات، گریڈ سولہ تک کے اساتذہ کی تقرری، سکولز کی نگرانی، بجٹ، مالی امور اور پرائمری و مڈل کے امتحانات کا ذمہ دار ہوتا تھا۔
یہ نظام کامیابی سے چل رہا تھا۔ ہر کوئی اس سسٹم سے مطمئن تھا۔ اضلاع میں ڈائریکٹر کی معاونت کے لئے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر اور تحصیل میں ڈپٹی ایجوکیشن آفیسر تعینات کئے جاتے تھے۔ 2001 میں بلدیاتی نظام متعارف کروایا گیا اور اختیارات اضلاع کو سونپنے کا عمل شروع ہو گیا۔ ڈویژن ختم کر دیے گئے اور تعلیمی معاملات بھی اضلاع کو سونپ دیے گئے ۔ضلع کا ناظم سیاسی ہوتا ہے جس کے ماتحت ڈی سی کو سب سے بڑا سرکاری آفیسر بنا دیا گیا۔محکمہ تعلیم کا ضلع میں سب سے بڑا آفیسر ای ڈی او کو قرار دیا گیا جو ڈسی او اور ناظم کے ماتحت رہ کر تعلیمی معاملات کو کنٹرول کرتا تھا اور آج بھی کر رہا ہے۔
آج بھی گریڈ 16 کے اساتذہ کی تقرری کا اختیار ضلع کے پاس ہے۔ آج بھی گریڈ 19 تک کے افسران کی اندرون ضلع ٹرانسفر ڈی سی او کر سکتا ہے۔ مالی معاملات سارے کے سارے ضلعی افسران کے تابع ہیں ۔نگرانی کا عمل بھی ضلعی افسران کر رہے ہیں۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی کو دئے جانے والے تمام اختیارات سوائے امتحانی سسٹم کے پہلے ہی اضلاع میں استعمال ہو رہے ہیں۔ پھر بھی ناجانے کیوں نیا تجربہ کیا جا رہا ہے۔ گڈ گورننس کے خواہاں اپنی سابقہ اصلاحات کے نتائج جاننے سے شاید کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ورنہ کوئی چھوٹا موٹا سروے کروا کر دیکھ لیں کہ آپ کی غلط پالیسیاں ٹھونسنے کے کتنے بھیانک نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔
انگلش میڈیم،ی ونیورسل ایجوکیشن کے اعداد و شمار، کمپیوٹر سسٹم پبے جا زور اور دیگر بہت سی پالیسیوں کا تجزیہ بہت ضروری تھا۔ سرکار کے مشیر بھی نرالے ہیں جو اچھے بھلے سسٹم کو مزید بہتر بنانے کی بجائے بالکل ختم کرنے کے مشورے دیتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی نئی اختراع ان کے ذہن میں پیدا ہوتی رہتی ہے تاکہ خادم اعلی کو اپنی جدتوں سے روشناس کروا کے شاباش کے مستحق ٹھہریں۔ 23 جولائی 2013 کو لوکل گورنمنٹ ایکٹ پنجاب اسمبلی میں منظور کیا گیا ہے جس کا ایک بڑا حصہ ڈسٹرکٹ ایجو کیشن اتھارٹی پر مشتمل ہے اس ایکٹ کے مطابق ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی کا چیئرمین اور وائس چیئرمین مقرر کیے جائیں گے۔
Education
جو ضلع میں تعلیمی امور کے ذمہ دار ہوں گے یہ چیئر مین اور وائس چیئرمین بلدیاتی منتخب نمائندوں میں سے ہوں گے ان کی معاونت کے لئے ان کے ساتھ سرکاری آفیسر لگائے جائیں گے۔ یہ بلدیاتی نمائندے ظاہر ہے سیاسی ہی ہوں گے اور سیاسی وابستگیاں ساتھ ہی لے کر آئیں گے اس ایکٹ کے مطابق ان سیاسی نمائندوں کے پاس اپنی مرضی سے معاملات کو چلانے کا اختیار ہے جیسا کہ سکول بلڈنگ کو دوسرے مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے مالی معاملات بہتر بنانے کے لئے سکول کی بلڈنگ کو کرائے پر بھی دیا جا سکتا ہے اپنی مرضی سے نئی بھرتیاں کی جا سکتی ہیں تبادلوں کا اختیار بھی انھی نمائندوں کے پاس ہو گا۔
بڑی معذرت کے ساتھ ہمارے ہاں سیاسی نمائندے جس طرح سے سیاسی بھرتیاں کرتے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں جو سیاسی نمائندے علاقے کا ایس ایچ او اپنی مرضی سے تعینات کرواتے ہوں ان سے تعلیمی معاملات میں غیر جانبداری کی توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے؟؟ اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کی کوشش کریں جیسے ہی اس اتھارٹی کے قیام عمل کا اعلان کیا جاتا ہے صوبے بھر کے اساتذہ سراپا احتجاج بن جاتے ہیں اساتذہ اس ظلم پر پنجاب اسمبلی، لاہور پریس کلب اور اپنے اپنے اضلاع میں بھر پور آواز بلند کرتے ہیں سڑکوں پر آجاتے ہیں۔
لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور ان سینکڑوں اساتذہ کی آوازیں ان سیاسی و غیر سیاسی مشیروں کے کانوں سے بھی کوسوں دور رہتی ہیں ابھی خادم اعلی کی پچھلی حکومت کی بات ہے مشیروں نے کالج ایجوکیشن میں بورڈ آف گورنرز کا تجربہ کیا کالجوں میں چار سالہ آنرز سسٹم کا اجراء کیا گیا وہ بھی بغیر کسی منصوبہ بندی کے۔۔۔ مجھے یاد ہے اس وقت بھی اساتذہ اور طلباء نے بھرپور احتجاج کیا تھا ظلم و تشدد کا نشانہ بھی بنے تھے۔
لیکن فیصلہ سنا دیا گیا تھا آج نتائج آپ کے سامنے ہیں بچے اپنے تعلیمی کیئریر کے قیمتی سال ضائع کر کے ان کالجوں سے آنرز سسٹم کو چھوڑ کر جا رہے ہیں خدارا تعلیم کے ساتھ بھیانک مذاق نہ کریں محکمہ تعلیم کو اپنے تجربات کا مرکز نہ بنائیں تاریخ گواہ ہے جن قوموں نے تعلیم کی قدر نہیں کی وہ قومیں ماضی کا حصہ بن کر رہ گئیں ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے ہمیں اپنا قبلہ درست کرنا ہو گا۔