تحریر : اختر سردار چودھری، کسووال علم کسی بھی ملک کی ترقی اور امن کا ضامن ہوتا ہے ۔ترقی ہر طرح کی اس میں شامل ہے مثلاََ مذہبی، لسانی، معاشی، اقتصادی، جغرافیائی اور سیاسی وغیرہ ۔تعلیم کے بغیر امن اور ترقی کا تصور ممکن نہیں ہے۔یہ بات تقریبا سبھی سابقہ موجودہ حکمران کہتے رہے ہیں لیکن کہنے والوں کا عمل دیکھتے ہیں تو صفر نظر آتا ہے۔ کیونکہ درجنوں نظام تعلیم، نصاب تعلیم اس وطن عزیز میں رائج ہیں۔
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد آج تک جتنی تعلیمی پالیسیاں بنائی گئی ہیں۔یہ پالیسیاں جس حکومت نے بھی بنائی ہوں،جتنے تعلیم کے شعبے میں تجربے کیے گئے ہیں ۔دنیا کے شائد ہی کسی اور ملک میں اتنے تجربے تعلیم پر کئے گئے ہوں ۔پہلی بات آج تک ملک کی ضرورتوں اور اعتدال پر مبنی تعلیمی پالیسیاں بنائی ہی نہیں گئیں ۔ا ور اگر کو ئی مناسب پالیسی ترتیب بھی دی گئی تو اس پر عمل در آمد نہ ہو سکا۔ حکمران بدلنے سے نظام تعلیم ،حتی کہ نصاب بدل جاتا ہے ۔ہمارے ملک میں تعلیم کے میدان میں ترقی معکوس کی وجہ یہ ہی ہے کہ اول مناسب تعلیمی پالیسی کا نہ ہونا ۔دوم کسی بھی پالیسی یا نظام و نصاب میں تسلسل نہ ہونا، سوئم نصاب تعلیم کا ایک جیسا نہ ہونا ۔اور ان سب کی وجہ کرپشن ہے۔
Budget
دوسری طرف ملک میں تین کروڑ بچے سکول نہیں جاتے، اس کے اسباب کس سے پوشیدہ ہیں۔یعنی غربت و بے روزگاری ۔نا انصافی ،مہنگائی وغیرہ ملک میں امن کے لیے ترقی کے لیے ہمارے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہوگا ۔اس کے لیے خالی نعرے لگانے ،اونچے اعلی ہوٹلوں میں تقریبات کرنے ،تقاریر میں دعوے کرنے سے سے علم کی ترقی ممکن نہیں ۔ملک کے ہر فرد کو ملکر تعلیم کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔حکومت کو ٹھوس منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔جن ملکوں نے یا قوموں نے تعلیم پر خصوصی توجہ دی اور اپنی تعلیمی پالیسیوں کے تسلسل کے لئے جی ہاں اصل چیز ہے تسلسل اور مناسب منصوبہ بندی اس کے بعد کا مرحلہ ہے، سرمایہ کاری کی تو وہ قوم ،ملک ترقی کر جاتا ہے۔
ایک بار پھر بجٹ آنے والا ہے ۔ایک بار پھر دو طرح کی باتیں ہونے جا رہی ہیں ۔معاشی ترقی کے قصیدے اور وہی اپوزیشن کی طرف سے مردہ باد کے نعرے ،کچھ نئے ٹیکس لگائے جائیں گے ،کچھ اشیاء میں ریلیف بھی دیا جائے گا ۔ہمارا موضوع تعلیمی بجٹ ہے جو کہ بجٹ 2015-16 میں جی ڈی پی کا 2.06 % تھا ۔ تعلیم میں ترقی کے لیے مجموعی قومی پیداوار کا کم از کم 4فیصد تعلیم پر خرچ کرنا چاہئے کچھ ممالک میں 10 فیصد تک خرچ کیا جاتا ہے، ایران اپنی جی ڈی پی کا 4.7فیصد، ملائشیا 6.2فیصد، تھائی لینڈ 4.2فیصد، جنوبی کوریا 4.6فیصد، بھارت 3.8فیصد اور بنگلہ دیش 2.5فیصد تعلیم پر خرچ کر رہا ہے۔تعلیمی بجٹ جو پہلے ہی خاصہ کم ہے ۔ اس کے درست استعمال کے لیے کیے جانے والے اقدامات ناکافی ہیں۔ تعلیمی شعبے میں مالی بے ضابطگیوں کی اطلاعات ہیں۔لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ بجٹ کے پیسے کا صحیح جگہوں پراستعمال یقینی بنائیں۔
پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے بارے میں بھی حکومت نے کوئی پالیسی نہیں بنائی۔ جبکہ پرائیویٹ اداروں میں پڑھنے والے طلبا کی تعداد سرکاری اداروں میں پڑھنے والے طلبا کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے ۔حکومت کو چاہیے کہ نصاب ،فیس ،تعلیم و تربیت بارے ٹھوس پالیسی بنائے اور خاص کر اس پرعملدرآمد کوبھی یقینی بنایاجائے ۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ تعلیم ہمارے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔زندگی اور موت کے مسئلے پر ہمارے بد قسمت ملک کی کسی بھی حکومت کو توفیق نہیں ہوئی کہ بنگلہ دیش،انڈیا،،تاجکستان ،مالدیپ جیسے ممالک جتنا ہی بجٹ مخصوص کرتے حیرت کی بات ہے ان ممالک کے بجٹ کے نصف سے بھی کم ہے ۔شرع خواندگی کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں 160 ویں نمبر پر ہے ۔اسلامی ممالک میں 54 ویں نمبر پر ہے ۔اگر ہم نے شرح خواندگی کو بڑھانا ہے تو تعلیم کے بجٹ میں ہنگامی بنیادوں پر اضافہ ضروری ہے۔
Education in Pakistan
صرف اعداد وشمار کے گورکھ دھندے سے کام نہیں چلایا جا سکتا ۔ہم کسی ایک حکومت کو اس کا مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے ، کسی نے بھی بدقسمتی سے تعلیم کو قوم کے لئے اتنا ضروری سمجھا ہی نہیں، اسکے بجٹ میں اضافہ نہیں کیا۔ مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ (منہاج القرآن) نے” تعلیم سب کے لیے” مہم کا آغاز کیا ہے ۔بروشر تقسیم کیے جا رہے ہیں، ایسا ہی ایک بروشر پڑھنے کا اتفاق ہوا ،جس میں صدائے احتجاج بلند کی جارہی ہے کہ اس بجٹ میں تعلیم کے لیے 4 فیصد بجٹ مختص کیا جائے۔
اسی بروشر میں تعلیم کی ترقی کے لیے جو مطالبات کیے گئے ہیں، چند درج ذیل ہیں ۔تعلیم کے لیے 4 فیصد بجٹ مختص کیا جائے۔10 سالہ تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ کیا جائے ۔لسانی ،طبقاتی اور فرقہ وارانہ تعصبات کا نصاب سے اخراج کیا جائے ۔ملک بھر میں نرسری سے 12Th گریڈ تک ایک نصاب اور یکساں نظام تعلیم کا نفاذ کیا جائے ۔تعلیمی اداروں کے اندر ہونے والی کرپشن کی روک تھام کے لیے نیب کا خصوصی سیل قائم کیا جائے ۔سرکاری تعلیمی اداروں کے معیار کی بہتری کے لیے قومی ،صوبائی اور بلدیاتی نمائندوں کے بچوں کیلئے انٹرمیڈیٹ تک صرف سرکاری اورمتعلقہ حلقے کے اندر تعلیمی اداروں میں ہی تدریس کا قانون بنایا جائے۔وغیرہ