تحریر: مریم چودھری تعلیم ہر انسان چاہے وہ امیرہو یا غریب ,مرد ہویاعورت کی بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے۔یے ہر انسان کا حق ہے جو اسے نہیں چھین سکتا۔ انسان کا حق ہے جو کوؤی اسے نھیں چھین سکتا۔ انسان اور حیوان تعلم ہی کی بدولت ہے۔۔ یے کسی بھی مشورییاقوم کے لیے ترقی کی ذمانت ہے تعلم ہی قوموں کی ترقی اور ذوال کی وجا بنتی ہے۔تعلم حاصل کرنے کا مطلب صرف سکول کالج یا یونیورسٹی سے کوئی ڈگری لینے نہیں بلکے اس کے ساتھ تمیزاور تہذیب سیکھانا بھی ہے تا کہ انسان اپنی معاشرتی روایات اور اقدار کو پاس رکھ سکے۔ تعلیم انسان کا کردار بھی سنوارتی ہے۔
تعلیم اک ایسی دولت ہے جو بانٹنے سے کم نہیں بلکے بر ہتی ہے۔ انسان کو “اشرف المخلوقات” کا درجا بھی صرف تعلیم کی وجا سے ملا۔ دنیا کے تمام کے تمام مذاہب میں تعلیم کو خاص اہمیت خاصل ہے۔ اسلام میں تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ہ نے یے کائنات بھی اس لیے بنایء تاکے انسان تعلیم کے ذریعے اسکے پو شیدہ راز پہہچان سکے اور اسکی معرفت حاصل کر کے اسکو پہچان سکے ۔ انسان کو دنیا کی تمام چیزوں پر فوقیت دی اور سب چیزوں کو اسکے متحط کیا کیو نکے وہ تعلیم کی وجہ سے ان سب سے ہے۔ ۔اسلام میں تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا تاکے انسان اپنا آپ اور خدا واحد کو پہچان سکے۔ یوں تو تعلیم و تربیت کی ضرورت ہر دور میں محسوس کی جاتی رہی ہے۔ دورَ جدید کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کی ضرور ت اہمیت اور افادیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ آج دنیا جس برق رفتاری سے ترقّی کی منزلیں طے کر رہی ہے
Happy Mother Day
اس سے اہلِ علم بخوبی واقف ہیں۔ نئے نئے علوم کے ساتھ ہی تحقیق و تدوین کا کام بھی اس قدر تیز رفتاری سے جاری ہے کہ دنیا انگشت بدنداں ہے۔ ہمارے لیے سوچنے کا مقام تو یہ ہے کہ ہم کس طرف کو جارہے ہیں ، ہمارے بچے کو نمبروں کی مشین بنا دیا گیا ہے جو کہ ایک اچھی نوکری کے لیے تو ٹھیک ہے مگر کیا کل کو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ آداب سے بالکل عاری ہو جائے اور ہمارے بڑھاپے میں جب اس کو ہمارا سہارا ہونا چاہیے اس وقت یہ ہم کو اولڈ ہاؤس میں چھوڑ کر Happy Father Day, اور Happy Mother Day کے دنوں میں ہم کو ہی صرف دیکھائی نہ دیں، آپ کی موت کے بعد اگر اس کو غسل ،کفن دفن کے علاوہ فاتحہ خوانی کا بھی طریقہ نہ آیا تو۔۔۔۔! جدید تعلیم کے تقاضے اپنی جگہ بالکل ٹھیک ہیں مگر ساتھ ساتھ اپنے بچو ں کو اسلام ، آداب اور شرعی معاشرت کے طریقے بھی سکھائیں،
ان کے موبائل چیک کریں ، بچیوں کو موبائل سے حتی الامکان دور رکھیں، فیس بک اپ ڈیٹس چیک کریں میرے کہنے کا مطلب ہر گز نہیں کہ اپنی اولا د کے اوپر شک و شہبات پیدا کریں مگر اولاد کی اصلاح کے لے کچھ تو اسباب ہمیں خود بھی پیدا کرنے ہوں گے۔ کتابیں جنہں ہم کورس کہتے ہے ان میں نا تو تہذیب ہے, نا معلومات نا ٹیکنولوجی اور بستے اتنے بھاری کے تمام جہاں کا علم اس میں رکھا ہے۔ ہم اس طرح تعلیم دینے کی کو شش کرتے ہیں۔ جیسے گد ھے کو کتابیں اٹھا کر عا لم نہیں بن سکتا اسی طرح یے بچے بھی نہیں لے سکتے۔
Parents
اگر تعلیم کی اہمیت کو دوبارہ اجاگر کرنا ہے تو یے سمجھے کسی شخص کا تعلیم یافتا ہونا اسکی بہترین مالکیت ہے۔ تعلیم کا مقصد تربیت یافتہ ہونا ضروری ہے اور ساتھ ہی والدین کا فرض یہ ہے کہ بچوں کو سبق رٹانے کی بجائے انکو پوری تیاری کا مو قع فراہم کے۔ کھیل ہی کھیل میں انکی ایسی تربیت کی جائے وہ اک دفع کو یا د کیا سبق کبھی نا بھولیں۔ ممکن ہے ان کو ششوں سے تعلیم کی روح پھر سے ذندہ ہوجاے اور طالب علعم کو بھوج کے بجائے پھول سمجھ کر اسکی خوشبوں سے خود بھی مہکیں اور پورے گلشن کو بھی مہکائیں۔