یہ حقیقت مسلم ہے کہ موجودہ مادیت پرستی کے اس گئے گذرے زمانے میں باعزت بقا ودوام حاصل کرنے کا واحد راستہ تعلیم ہی ہے۔یعنی کہ اگر کوئی معاشرہ عصر جدید میں دوسروں پر اپنی جائز بالادستی چاہتا ہے یا اپنے جائز حقوق کا تحفظ چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ علم کے زیور سے آراستہ ہوجائے ۔جب تک ملت اسلامیہ نے اپنی تمام ترترجیحات کا مرکز و محور علم کو بنائے رکھا اس وقت تک پوری دنیا کو مسخر کیے رکھا اس پر حقیقی تاریخ کبیر شاہد ہے۔
مگر سقوط اندلس کے اور انگریز کے غلبہ کے بعد مسلمانوں نے علم کے حصول کو متروک کردیا تو ذلت و رسوائی ہماری ملت کا مقدر ٹھہری۔ پاکستان موجودہ عالمی دنیا کے افق پر ایک اہم مقام و حیثیت کا حامل ہے اور مسلم امہ کی حقیقی نمائندگی بھی کر رہا ہے۔ ملک پاک کی نئی حکومت ارض پاک میں تعلیم کی شرح کو بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف عمل نظر آرہی ہے۔
اس سلسلہ میں ملک بھر میں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے ساتھ ساتھ مرکزی سطح پر وزیر اعظم نے نوجوانوں کے لیے چھ نئی پالیسیوں کا اعلان کر چکے ہیں (اس پر مفصل بات جلد اپنی تحریر میں کروں گا)۔ مگر مسئلہ اصل شرح خواندگی کا نہیں ہے بلکہ تعلیمی شرح بہتر بنانے کے ساتھ ہی مقصد تعلیم کو واضح کرنے کا بھی ہے۔ کیوں کہ تعلیم یافتہ ڈاکٹر جس کو مسیحا ہونا چاہیے وہ قاتل بن چکا ہے۔
استاذ جس کو مشفق و محب ہونا چاہیے تھا طلبہ کے حق میں وہ علمی خیانت کا مرتکب ہوچکا ہے،من جملہ انتظامیہ جسے طلبہ کی خدمت کو اپنا شعار بناچاہیے تھاانہوں نے تکبر و غرور کی چادر کو زیب تن کر رکھا ہے، بیور کریسی، حکومت اور تعلیمی شعبوں سے وابستہ تمام افراد کو طلبہ کو بلا امتیاز حصول تعلیم کے مرحلے میں سہولت کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے تھا۔
مگر ان سب نے اقربا پروری اور اپنے من پسند لوگوں کو نوازنے کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے اور اسی طرح ملک میں موجود تمام تر برائیوں، خرابیوں، اخلاقی بے راہرویوں ،چوریوں ،حرام خوریوں میں تعلیم یافتہ افراد لت پت نظر آئیں گے۔۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا نوجوان تعلیم کے شعبہ میں قدم رکھنے سے قبل متعدد بار سوچ و بچار کرنے پر مجبور ہے کہ اس کو اپنی تعلیم کی تکمیل کے بعد کس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑیگا۔
Educational Institutions
اس کا سبب یہ ہے کہ تعلیمی ادارے رٹہ سسٹم یا کتب کو یاد کر کراکر اعلیٰ سے اعلیٰ اسناد کے حاملافراد تو تیار ہوجاتے ہیں مگر انکی تعلیم اخلاقیات، انسانی اقدار، ہمدری ملت اور دینی غیرت و حمیت سے نابلد ہوتی ہے۔ موجودہ تعلیمی اداروں سے باصلاحیت رجال کارکی عدم دستیابی کی ایک بہت بنیادی وجہ تمام سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں سیاست دانوں کی ناجائز مداخلت نے بھی بڑاکام کیا ہے۔
کیوں کہ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ، اساتذہ، اور طلبہ سب کے سب کسی نا کسی دائرہ میں سیاسی سرگرمیوں میں دہنسے ہوئے ہوتے ہیں۔سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے مذکورہ بالا تمام طبقے اپنے کام میں بڑی بے شرمی و بے حمیتی کے ساتھ بد عہدی و خیانت کے جرم میں ملوث ہوتے ہیں۔ کہیں اساتذہ تعلیم کی فراہمی میں کام چوری کے مرتکب ہوتے ہیں یا پھر وہ اپنے نظریہ و جماعت سے وابستہ افراد کو نوازتے ہیں اور مخالف سوچ و فکر رکھنے والے طلبہ کو زیر عتاب رکھتے ہیں۔
تعلیمی اداروں میں موجود سیاسی تنظیمیں اپنے ناجائز زعم میں مبتلا ہو کر اساتذہ و انتظامیہ کو ہراساں کرتے ہیں ایک اطلاع کے مطابق بعض طلبہ بازور بازو امتحانی نتائج بھی تبدیل کرالیتے ہیں۔ دوسری جانب تعلیمی اداروں میں موجود انتظامیہ سے وابستہ افراد بھی اپنے من پسند طلبہ و اساتذہ و طلبہ کی جائز و ناجائز سرپر ستی کرتے ہیں ظلم در ظلم یہ ہے کہ متعدد واقعات ایسے مشاہدے میں آئے ہیں کہ طلبہ تنظیمیں ادارے کے آئین و قانون کی دھجیاں بکھیردیتے ہیں۔
اس پر ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں ہوپاتی کیوں کہ ان تنظیموں کی پشت پناہی ان تعلیمی اداروں کی انتظامیہ خود کر رہی ہوتی ہے۔ آج ضروت اس امر کی ہے کہ حکومت اگر ملک میں باصلاحیت و ماہر قیادت کے حصول میں فی الحقیقت سنجیدہ ہے تو اس پر لازم ہے۔
وہ مختلف اسکیموں کے اعلانات کے ذریعے تعلیمی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ بس اسی پر اکتفا نہ کرے بلکہ تمام سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی اداروں سے سیاسی مداخلت کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دے بصورت دیگر تمام تراقدامات بے فائدہ وبے مقصد رہیں گے۔ اسی طرح تمام تعلیمی اداروں میں تمام علوم و فنون کے ساتھ اخلاقیات ،انسانی قدروں کی تعلیمات کی فراہمی کے لیے بھی قانون سازی کریں۔
Atiq Ur Rahman
تحریر: عتیق الرحمن deskibaat1987@gmail.com 03135265617