گذشتہ روز قومی اسمبلی میں کالا باغ ڈیم کے حوالہ سے رکن قومی اسمبلی طاہرہ اورنگزیب نے صرف اتنا کہا تھا کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لیے چاروں صوبے ملک بیٹھ کر کوئی فیصلہ کریں بس اس کے بعد پھر وہی ہوا جو آج تک ہوتا آیا ہے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ، ایاز سومرو اور یوسف تالپور سمیت اور بہت سے اراکین نے حسب سابق کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں ایوان سر پر اٹھا لیایہ وہی لوگ اور جماعتیں ہیں جو عوام کا کون چوس چوس کر اب آدم خور بلائیں بن چکی ہیں جنہوں نے ملکی ترقی کے نام پر صرف اپنے خاندان کی ترقی کی ذاتی لالچ اور پسند و ناپسند کی وجہ سے ملک آج اندھیرے میں ڈوب رہا ہے اور ہم معاشی، صنعتی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ایک سو سال پیچھے چلے گئے۔
ہیں لوگ غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے بچوں سمیت خودکشیاں کررہے ہیں اور ہمارے یہ نام نہاد سیاسی رہنماء غریب کے منہ سے آخری نوالہ بھی چھین کر اپنے بچوں کے پیٹ بھر رہے ہیں اگر ان میں عقل و شعور اور حب الوطنی ہوتی تو یہ کبھی بھی کالا باغ ڈیم کی مخالفت نہ کرتے جو منصوبہ 1983 میں 200 ارب میں مکمل ہونا تھا اگر ایک بار پھر اسی منصوبہ پرکام شروع کیا جائے تواب اس پر لاگت تقریبا 900ارب سے بھی زائد آئے گی مگر مجھے امید ہے کہ جب تک ہمارے یہ سیاسی لٹیرے قومی خدمت کے جذبہ سے عوام کو بیوقوف بناتے رہیں گے اس وقت تک یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوسکتا یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جو غریب ملک اور غریب عوام کو خوشحالی کی منزل تک لے جاسکتا ہے۔
ا س ڈیم سے ابتدائی طور پر 3600 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی جو تقریبا ڈیڑھ روپے فی یونٹ پڑے گی اس ڈیم سے سندھ کا 40 فیصد زرعی رقبہ اور 5 اضلاع خیبر پختونخواہ کو فائدہ پہنچے گا جس کی وجہ سے وہاں کے غریب کسان اور ہاری کی زندگی میں بھی خوشحالی آئے گی اور وہ بھی اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلانے کے لیے ملک اور بیرون ملک کے اچھے اداروں میں بھیج سکے گاملک کی زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگا جس سے ہماری برآمدات بڑھیں گی وافر بجلی کی بدولت ملکی انڈسٹری پھلے پھولے گی اور روزگار میں اضافہ ہو گا غربت اور بے روزگاری کے ہاتھوں پریشان ہمارے پاکستانی بھائی جو اپنا سب کچھ بیچ کر ایجنٹوں کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہو کر روزگار کے سلسلہ میں دوسرے ممالک جاتے ہیں وہ بھی اپنے ملک میں رہ کر قوم کی خدمت کرینگے۔
Education
اور سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ جہاں روزگار ہو گا وہاں غربت نہیں رہے گی اور جہاں غربت ختم ہو جائیگی وہاں تعلیم عام ہو جائیگی اور جس ملک اور معاشرہ میں تعلیم عام ہوتی ہے وہاں جہالت نہیں رہتی اور جب انسانی معاشرہ جہالت سے پاک ہو جاتا ہے تو پھر ہاں پر نہ خود کش حملے ہوتے ہیں نہ ڈرون حملے ہوتے ہیں اور نہ ہی مذہبی فسادات کے نام پر ایک دوسرے کی گردنیں اڑائی جاتی ہیں بلکہ ایک مثالی اسلامی معاشرہ قائم ہو جاتا ہے جہاں ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف بھی کیا جاتا ہے۔
ایک دوسرے کو برداشت بھی کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے پھر نہ کوئی طاقت ہمیں بلوچستان سے تیل، سونا اور ہیرے جیسے نایاب جواہرات نکالنے سے منع کر سکے گی اور نہ ہی ہمیں اپنی گوادر بندرگاہ کسی اور ملک کو ٹھیکہ پر دینے کی ضرورت پڑے گی مگر ایسا تب ہی ممکن ہو سکے گا جب اس ملک کی لیڈر شپ پاکستان اور پاکستانی قوم کی دشمن نہ ہو ایسے نام نہاد اور فراڈیے سیاستدان نہ ہوں جنہوں نے غریب عوام کے حقوق پر ڈاکے ڈال کر ملکی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر بیرون ملک اپنے اثاثے نہ بنائے ہوں ایسے جاہل اور خود غرض سیاستدان اور ڈکٹیٹر نہ ہوں جنہوں نے کبھی جمہوریت کی آڑ لیکر اور کبھی آمریت کی چھتری کے سائے تلے عوام کی قربانی دیکر اپنی بلائیں ٹالی ہوں اور نہ ہی ہمیں ایسے رہزنوں کے بھیس میں رہنمائوں کی ضرورت ہے۔
جنہوں نے الیکشن سے قبل عوام کو سہانے خواب دکھا کر لوٹ لیا ہمیں ضرورت ہے تو ایسے عوام دوست اور محب وطن لیڈر کی جو قائد اعظم محمد علی جناح کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہمیں ایک بار پھر ان بیرونی ایجنٹوں سے نجات دلا دے ہمیں ان غلامی کی زنجیروں سے آزاد کروادے جو ان ملک دشمن حکمرانوں نے کشکول اٹھا کر ہمیں بھکاری بنا کر پہنا رکھی ہیں اے اللہ ہم سے انجانے میں یا جانبوجھ کر جو بھی غلطی ہو گئی ہے ہمیں معاف فرما دے جو ہم پر مسلط ہیں انہی کو ہدایت دیدے یا کوئی معجزہ دکھا دے ہم میں اب برداشت کی مزید سکت نہیں ہے یااللہ ہمیں معاف فرمادے(آمین)