تحریر : نور بخاری علم کی افادیت سے وہی باخبر ہو سکتا جو علم کی اہمیت سے آگاہ ہو۔ جیسا کہ ہمارے مذہب اسلام میں علم کی اہمیت بہت اچھے انداز میں بیان کی گئی ہے۔ مرد اور عورت دونوں کے لیے علم حاصل کرنا بہت ضرور ی قرار دیا گیا ہے۔
ایک بات جو غور طلب ہے اگر مرد تعلیم یافتہ ہو تو علم کی روشنی سے صرف ایک گھر منور ہو سکتا پر اگر ایک عورت تعلیم یافتہ ہو تو علم کی روشنی کئی نسلوں تک کو منور کرتی ہے۔
وطن عزیز حاصل کیے ایک طویل عرصہ بیت گیا تاہم آج بھی ملک کے بیشتر علاقے تعلیم سے محروم ہیں۔ بطو ایک مسلم اگر ہم تعلیم کی اہمیت و افادیت کو سمجھیں تو یقینا اسلام نے تعلیم کے حصول کو ہر مسلم مرد و زن پر لازمی قرار دیا ہے۔
Education
شروع اسلام میں جنگوں کے دوران بھی اسلام نے تعلیم کی بنیاد پر بہت سے دشمنان اسلام کے قیدیوں کو رہائیاں دیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اسلام نے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ ہم ہی وہ تھے جنہوں نے تعلیم و تعلم میں وہ کمال حاصل کیا تھا کہ جس کے بہت سے نشانات آج بھی یورپ کی لائبریریوں میں ملتے ہیں۔
شاید ہم نے اسلام اور پھر تعلیم سے کنارہ کشی اختیار کی جس کی وجہ سے ہم پسماندگیوں میں گرتے چلے گئے۔ وطن عزیز کا حصول یقینا ایک آزاد مملکت کا حصول تھا جہاں ہم اپنی آزادی سے جی سکیں۔ تعلیم و تعلم کا حصول اپنے انداز میں جاری رکھ سکیں۔ مگر اللہ کے فضل و کرم سے ملک تو حاصل کر ہی لیا تاہم وہ مقاصد حاصل کرنے سے تاحال قاصر دیکھائی دیتے ہیں جو حصول وطن کے لیے رکھے گئے تھے۔
غیروں سے خود کو جسمانی طور پر آزاد تو کر الیا تاہم ذہنی طور پر آج تک ہماری قوم ان کی غلامی سے باہر نہیں آسکی۔ ہندوانہ رسم و رواج اور ان کے کلچر کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا عام سی بات ہوگئی ہے۔ ایسا لگتا کہ اسلام سے دوری ہی تعلیم سے دوری کا باعث بن رہی ہے۔
Islam
تعلیم سے دوری اسلام سے دوری اور اسلام سے دوری تعلیم دونوں ایک دوسرے کے مترافات ہی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں سیاسی رسہ کشی کے بجائے اپنے معیار تعلیم کو بہتر کرنا ہوگا۔
ملک کی آزاد قوم کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ یہ ملک ایک مقصد کے تحت حاصل کیا گیا تھا۔ اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام اور پھر تعلیم کا حصول یقینی بنا کر معاشرے کو بہتر سے بہتر افراد مہیا کیے جائیں۔