تحریر : محمد پرویز بونیری ناخدائے سخن، تاج الشعراء فصیح العصر منشی و مولوی محمد نوح صاحب 18 ستمبر 1879 کو اتر پردیش رائے بریلی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حافظ قدرت علی اور مولوی یوسف علی صاحب سے حاصل کی۔ اسکے بعد کچھ عرصہ عبدالرحمن جائسی اور پھر فارسی اور عربی کی تعلیم میرنجف علی صاحب سے حاصل کی۔ ساتھ ساتھ نوح صاحب نے انگریزی زبان کی تعلیم بھی حاصل کی۔ نوح صاحب ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ لمباقد، گورارنگ، گول چہرہ، روشن آنکھیں، سرکے بال سیاہ، مونچھیں کسی قدر بڑی، داڑھی نہیں تھی۔ علی العموم شیروانی اورپائے جامہ پہنتے تھے۔ گفتگو نہایت متانت کے ساتھ کرتے تھے، مزاج میں کسی قدر عجلت ، غصہ کم اور درگذر زیادہ، رفتارمعمول سے تیز، صاف گو، حلیم و بردبار اور صابر، اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک ہمہ گیر طبیعت عطا کی تھی۔
میرنجف علی کی صحبت سے شعر وسخن کاشغف پیداہوا ۔ اپنا کلام کسی مسلم الثبوت استاد کو دکھانے کی خاطر پہلے ایک غزل امیرمینائی کی خدمت میں رام پوربھیجی ۔ انہوں نے اصلاح تودیدی مگرساتھ یہ لکھاکہ وہ بہت عدیم الفرصت رہتے ہیں اوردوسرے تیسرے مہینے بعدایک غزل دیکھ لیا کریں گے۔اس سے زیادہ نہیں دیکھ سکتا۔اسکے بعدنوح صاحب نے وہی اصلاح شدہ غزل اورایک نئی غزل جلال لکھنوی کی خدمت میں بھیج دی ۔حضرت نے دونوں غزلوں میں ترمیم فرمائی اورساتھ یہ بھی تحریرفرمایا۔”میں اصلاح کامعاوضہ فی غزل ایک روپیہ لیتاہوں”۔ چونکہ نوح صاحب اسکے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔
Na Khuday Sukhan Noor Narwe
اسلئے انہوں نے وہی اصلاح شدہ غزل پھرامیرمینائی کی خدمت میں بھیج دی ، جنہوں نے اس میں مزید تبدیلیاں کیں اوریوں نوح صاحب کے دل میں ان دونوں شعراء سے بدعقیدگی پیداہوگئی۔اب انہوں نے ڈرتے ڈرتے اس خیال سے کہ نواب فصیح الملک بہادرحضرت داغ دہلوی حضورنظام حیدرآباد دکن کے استادہیں، توجہ فرمائیں گے یانہیں، ایک غزل اصلاح کے لئے انکی خدمت میں بھیج دی ۔جب یہ غزل اصلاح کے بعد واپس آئی تواصلاح شدہ غزل کی ایک ایک نقل امیرمینائی اورجلال لکھنوی کو بھیج دی۔اسکے بعدنوح صاحب مستقل حضرت داغ کے شاگردہوگئے، یہاں نہ نذرانہ تھااورنہ معاوضہ۔اب افسوس کہ وہ اصلاح شدہ غزلیں دستیاب نہ ہیں۔
نوح صاحب کے سامنے استاد کے دواوین پڑے رہتے اور استاد کی تقلید کرتے کرتے انکوخیال آیا کہ کیوں نااستادکے دواوین زبانی یاد ہو جائے تا کہ ہر موقع پر بطور دلیل مستند شعریادہو۔اس مقصد کے لئے انہوں نے گلزارداغ، فریادداغ اورمہتاب داغ زبانی یاد کرنا شروع کئے جبکہ یادگار داغ ابھی تک شائع نہیں ہوا تھا۔اشعار یاد کرنے کے دوران ایک مطلع پر نظر پڑی۔
کون غمخوار الہی شب غم ہوتا ہے اب تو پہلو میں میرے دردبھی کم ہوتا ہے۔
اس شعرسے عجب کیفیت پیداہوگئی ۔ بے اختیارآنکھوں سے آنسوں جاری ہوئے اورتمام دن رات بے چین رہتے۔بارباراس مطلع کوپڑھتے اورعالم وجدمیں جھومتے تھے۔اس وقت دل میں ٹھن گئی کہ میں ضروراستاد کو دیکھنے جائوں گا۔یہ لگی ایسی نہ تھی جوبجھانے سے بجھ جاتی ، مگرخیال یہ تھا کہ والدہ صاحبہ اجازت نہ دے گی اوراعزابھی ایسے طولانی سفر کو پسند نہیں کریں گے۔ آخر گھر سے بغیراجازت نکل پڑے اورکئی روزوشب کے سفرکرنے کے بعدحیدرآبادپہنچ گئے۔یہ سفرنوح صاحب نے سال 1903میں اختیارکیاتھا۔ استاد محترم کے پاس پہنچتے ہی انکے قدم بوس ہوئے۔
Na Khuday Sukhan Noor Narwe
انہوں نے نوح کوگلے سے لگایا اورخوب خاطرمدارت کی۔نوح کوشعروسخن کاخوب ماحول میسرہوااوراچھے اچھے شعراء کی ہم نشینی کاموقع ملا۔نوح نے اپنی ماں کوتفصیلی خط بھیج دیااوراپنے حال واحوال سے آگاہ کیا، جس سے وہاں انکی بے چینی قدرے کم ہوئی۔نوح نے تین سال داغ کی ہم نشینی اختیارکی اور شعر وسخن کی خوب مشق کی۔نوح ناروی کے کلام میں اگرچہ کچھ خاص خوبیاں پیدانہ ہوسکیں ، تاہم حضرت داغ کی صحبت اورہم نشینی کے طفیل زبان کاچٹخارہ ، سادگی اورسلاست انکے کلام کی امتیازی خصوصیات ہیں۔
اداآئی جفا آئی غرور آیا حجاب آیا ہزاروں آفتیں لے کر حسینوں پر شباب آیا
نوح ناروی کادیوان اول سفینہ نوح کانام داغ دہلوی نے رکھاہے ، جونوح صاحب کے نام کی نسبت سے کس قدرموزوں ہے۔اس دیوان کی مناسبت سے داغ کے کچھ اشعار۔
میرے پیارے نوح کا دیوان مرتب ہو گیا ابتدا سے انتہا تک خوب لکھا نوح نے نوح نے عرقاب حجلت حاسدوں کویوں کیا کافروں کو جس طرح پہلے ڈبویا نوح نے
بقول نیازفتح پوری ، نوح ناروی داغ کے سچے شاگردہیں۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ داغ کی جانشینی کااعزازبھی نوح ناروی کوحاصل ہے۔ کلیم الدین احمد کے بقول ، نوح الفاظ سے کھیلتے ہیں ، گہرائی مطلق نہیں ۔ محققین اورناقدین نوح کوالفاظ اورزبان کابڑاشاعرتسلیم کرتے ہیں۔بطورنمونہ کچھ اشعارپیش کئے جاتے ہیں۔
آپ آئے بن پڑی میرے دل ناشادکی آپ بگڑے بن گئی میرے دل ناشادپر چلونوح تم کو دکھالائیںکہ تم نے نہ مے خانہ دیکھا نہ بت خانہ دیکھا لیلیٰ ہے نہ مجنوں ہے نہ شیرین ہے نہ فرہاد اب رہ گئے ہیں عاشق ومعشوق میں ہم آپ
نوح صاحب کاپہلادیوان شائع ہونے کے بعد لوگوں کاخیال تھا کہ نوح صرف غزل کے شاعرہیں کیونکہ اس دیوان میں زیادہ ترغزلیں تھیں لیکن دوسرادیوان طوفان نوح شائع ہونے کے بعد سب کی آنکھیں کھل گئیں کہ نوح صاحب نے توبہت ساری اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔اردوشاعری کی تاریخ میں ناسخ ، آتش اورداغ کے بعدسب سے زیادہ شاگردہیں، جنکی تعدادہزاروں میں ہیں۔ان کاتیسری دیوان اعجازنوح کے نام سے شائع ہوا ہے۔
آپ جن کے قریب ہوتے ہیں وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں جب طبیعت کسی پہ آتی ہے موت کے دن قریب ہوتے ہیں
الفاظ اور زبان کے اتنے بڑے شاعر گوشہ گمنامی میں پڑے ہوئے ہیں اورادب سے تعلق رکھنے والے لوگ بالخصوص اردوادب کے طلباء کی اکثریت نوح صاحب کے نام سے ناواقف ہیں۔ ادب کی خدمت کرنیوالے ایسی ہستیوں کے کارناموں کو منظرعام پر لانے کے لئے ادب کے گمنام گوشے کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے۔ نوح ناروی صاحب تقریباً اسی سال کی عمرمیں 10 اکتوبر 1962 کو وفات پائے۔