تحریر : مجید احمد جائی تعلیم، یونانی لفظ سے نکلا ہوا ہے جس کے لفظی معنی پڑھانا یا سیکھانا ہے۔ تعلیم سے مراد وہ تمام طریقہ ہائے تعلیم ہیں جن کے ذریعے اقتدار، عقائد، عادات، ہر طرح کا علم، ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کیا جاتا ہے۔ تعلیم کسی بھی قوم کا اثاثہ ہے جو قوم تعلیم کے معیار کو بہتر سے بہترین بناتی ہے وہ کامیاب رہتی ہے۔
تعلیم ہی کسی قوم کو ٹیکنالوجی، دفاع، صحت ،صنعت و حرفت،زراعت کے میدان میں کامیابی کی ضامن ہے ۔نیلسن منڈیلا نے کیا خوب کہا ہے ”تعلیم دُنیا کو بدلنے کے لیے مضبوط ترین ہتھیار ہے ”۔ تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جاپان جو جنگ عظیم کے دوران تباہ ہو چکا تھا نے اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ ٹیکنالوجی اور تعلیم پر صرف کیا اورچند ہی برس میں اپنی مشینری پوری دُنیا کو درآمد کرنے کے قابل ہو گیا۔
اسلام میں تعلیم حاصل کرنے کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے ۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ غزوہ بدر میں پکڑے جانے والے قیدیوں کو مدینہ کے تین مسلمانوں کو تعلیم دینے کی شرط پر رہا کر دیا جاتا ہے ۔مشہور قول بھی ہے کہ علم حاصل کرو چاہے تمھیں چین جانا پڑے اور حدیث کا مفہوم ہے ”علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر لازم ہے۔
قرآن مجید کی صورت میں ہمیں علم کا ایک خزانہ دے دیا گیا ہے ۔جس کی آیات زندگی گزارنے کے اُصولوں ،انسانی حقوق ،سائنس،حکمت،غوروتدبر سے آراستہ ہیں۔یہ علم ہی ہے جو انسان کو شعور عطا کرتا ہے اور جہالت کے اندھیروں سے نکال کر زندگی بسر کرنے کے اُصولوں سے متعارف کرواتا ہے۔
پاکستان میں معیار تعلیم کی بات کی جائے تو مایوسی کی فضا چھا جاتی ہے ۔پاکستانی معیار تعلیم بُحران کا شکار رہا ہے ۔اس کا معیار تعلیم دوسرے ممالک کی نسبت کہیں کم ہے ۔عموما تعلیم رسمی ڈگری حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بن چکی ہے ۔ٹیکنکل ،غیر رسمی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے ۔ملک کا ایک بڑا طبقہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔
تعلیمی معیار نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں بچوں کی ایک بڑی تعداد تعلیم سے محروم رہ جاتی ہے۔دوسری اہم وجہ تعلیمی نظام میں سیاسی دخل اندازی بھی ہے ۔جب بھی حکومت بدلتی ہے تعلیمی نظام میں تبدیلیاں کر دی جاتیں ہیں جو کہ بعض اوقات ملک کے ایک بڑے طبقے کے لئے قابل قبول نہیں ہوتی ۔تعلیمی نظام بہتر نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بجٹ میں تعلیم کے لیے نہایت قلیل رقم مختص کی جاتی ہے ۔پھر باقی شعبوں کی طرح یہ شعبہ بھی کرپشن کا شکار ہو گیا ہے ۔چاہے وہ اساتذہ کی تقرری ہو یا کتب کی تعلیم و ترسیل ،ہر جگہ کرپشن اور ندعنوانی کا دور دورہ ہے ۔مفت فراہم کی جانے والی کتب کو مارکیٹ میں فروخت کردیا جاتا ہے جس سے سکولوں میں کتب کی کمی ہو جاتی ہے اور ناچار طُلبہ کو وہ کتابیں مارکیٹ سے خریدنا پڑتی ہیں۔
پاکستان میں چار طرح کے نظام تعلیم رائج ہیں ۔ایک تو گورنمنٹ اور وہ سکول جو پرائیوٹ پبلک یا انٹر شب کے تحت کام کر رہے ہیں ۔دوسرا پرائیوٹ سکول،تیسرا کیمرج سسٹم کے تحت چلائے جانے والے سکول۔چوتھا مدرسے ۔ان تمام کے تمام نظام تعلیم کے نصاب ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔گورنمنٹ سکولوں میں بھی دو طرح کے نصاب پڑھائے جاتے ہیں ۔ایک اُردو میڈیم اور دوسرا انگریزی۔1947ء سے اب تک لگ بھگ نو تعلیمی پالیسی دستاویزات مرتب بھی کی گئیں۔ان میں سے پانچ کو فوجی امرور کے ادوار میں مرتب کیا گیا۔نومبر،دسمبر1947ء کو کراچی میں پہلی پاکستانی تعلیمی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں نئے مملکت کے تعلیمی خدوخال کے لیے سفارشات ایک رپورٹ کی صورت میں مرتب کی گئی۔
Education in Pakistan
اس وقت کے وزیر داخلہ فضل الرحمان نے اپنی تقریر میں اس نئی مملکت کے لیے بنیادی تعلیمی اُصولوں پرروشنی ڈالتے ہوئے کہا۔ ”اردو نے ایک غیر معمولی قوت اور حساسیت دکھائی ہے ۔اُردو خیالات کی ساری سطحیں اور تخیل کے پیچیدہ اور نازک پروازوں کے اعلیٰ اظہار اور ابلاغ کا ذریعہ ثابت ہوئی ہے ”(حوالہ گورنمنٹ آف پاکستان رپوٹ1947) اس کانفرنس میں اردو کو رابطے کی زبان قرار دیا گیا ۔انگریزی زبان کو بطور ذریعہ تعلیم مضرگردانا گیاتاہم اسے مغرب کے سارے سائنسی خزانوں اور تہذیبوں کو رسائی کا ذریعہ مانا گیا۔خود بانی پاکستان نے1948ء میں ڈھاکا میں واضح کیا کہ پاکستان کی قومی زبان صرف اُردو ہو گی ۔بنگالی تحریک کے زیر اثر 1954ء میں اُردو کے ساتھ بنگالی زبان کو بھی قومی زبان تسلیم کیا گیااور 1956ء کے آئین میں اس کا باقاعدہ اعلان کیا گیا ۔1958ء کا مارشل لاء لگا کر جنرل ایوب خان ملک کے حکمران بنے۔ 1959ء کو تعلیم پر قومی کمیشن بنا ۔اس کمیشن کی روسے اردو اور بنگالی دونوں کو پاکستان کی قومی زبانیں تسلیم کیا گیا ۔اس کمیشن نے سفارش کی کہ قومی زبانیں بتدریج انگریزی کی جگہ ہر سطح پر ذریعہ تعلیم ہو ں گی تاہم انگریزی کو چھٹی جماعت سے آگے ڈگری سطح کی تعلیم تک لازمی مضمون کی حیثیت سے برقرار رکھا گیا۔اسی پالیسی میں کہا گیا کہ اگلے پندرہ سالوں میں یونیورسٹی سطح پر اردو زبان ذریعہ تعلیم کے طور پر انگریزی کی جگہ لے گی۔
1965ء کو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ چھڑ گئی ۔دوسری تعلیمی پالیسی 1969ء میں آئی ۔اس دوران ملک کے حکمران جنرل یحییٰ تھے ۔اس پالیسی میں جو نئی باتیں شامل کی گئیں وہ اُردو اور مغربی پاکستان اور بنگالی کو مشرقی پاکستان میں سرکاری زبان کا درجہ دینا تھا۔1970 میں ایک اور تعلیمی پالیسی مرتب کی گئی ۔1971 ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تیسری جنگ چھڑ گئی جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش بنا۔1972 ء ایک اور تعلیمی پالیسی سامنے آئی جس میں کوئی نئی بات سامنے نہ آئی ۔1973 ء میں پاکستان میں جمہوری حکومت نے پہلا متفقہ آئین منظور کیا۔اس میں اُردو کو قومی زبان قرار دیا گیا۔
1977ء میں جنرل ضیا ء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ اُلٹ کر ملک میں مارشل لاء لگا دیا۔جنرل ضیا الحق نے پورے ملکی نظام کو اپنی فہیم کے مطابق اسلامی بنانے کی ٹھانی۔اُنہی کے دُور میں 1979ء میں چھٹی تعلیمی پالیسی آگئی۔نجی سکولوں میں بھی اُردو کو بطور ذریعہ تعلیم نافذ کیا گیا۔اُردو کے فروغ کے لئے اقدامات کیے گئے اور اسے مسلم شناخت کی علامت بنایا گیا ۔اسی پالیسی میں سفارش کی گئی کہ اُردو ذریعہ تعلیم ہو گی تاہم اس کے ساتھ تیسری جماعت سے ایک علاقائی زبان کو پڑھایا جائے گا۔ 1992ء میں محمد نواز شریف کی پہلی حکومت میں تعلیمی پالیسی بنی جو جنر ل ضیاء الحق کی پالیسی کے متضاد تھی۔اس پالیسی کی رو سے ذریعہ تعلیم کا فیصلہ صوبوں نے کرنا ہے ۔اس پالیسی نے آگے سفارش کی کہ اعلیٰ سائنسی ،تکنیکی تعلیم انگریزی میں دی جائے گی۔2009میں پی پی حکومت میں انگریزی کو اہمیت دی گئی اور اس پالیسی کے رو سے انگریزی کچی جماعت سے ایک مضمون کے طور پر شامل ہو گی ۔جماعت اول سے اُردو ،انگریزی ایک صوبائی زبان اور ریاضی کے مضامین رکھنے کی سفارش کی گئی۔
ان سب تعلیمی پالیسیوں پر نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ زبان کے مسئلے کو پاکستان میں سماجی ،تعلیمی اور ثقافتی لحاظ سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔زبان کا صرف سیاسی اور نظریاتی پہلو غالب رہا ۔اردو کو باوجود وعدوں اور قانون سازی کے سرکاری زبان کا درجہ نہیں دیا گیا جا سکا۔اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے بھی واضح احکامات دیے لیکن اُردو دفتری اور سرکاری زبان نہ بن سکی ۔کئی وعدوں کے باوجود انگریری کی حیثیت کو تبدیل نہیں کیا جا سکا۔انگریزی بدستور پاکستان میں طاقت اور ترقی کی زبان ہے۔پاکستان میں طاقت اور مسلح افواج ،عدلیہ اور افسر شاہی کی زبان انگریزی ہی ہے۔
پاکستان کو ایک سہ لسانی تعلیمی پالیسی کی ضرورت ہے ۔ابتدائی تعلیم کے لیے مادری زبان کو ذریعہ تعلیم ہو نا چاہیے ۔اس کے ساتھ اردو اور انگریزی کو بطور مضمون ہو نا چاہیے۔اگلی جماعتوں میں اُردو اور انگریزی ذریعہ تعلیم ہو اور مادری زبان کو ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھانا چاہیے ۔اسی سے پاکستان میں تعلیم بھی بہتر ہو سکتی ہے ۔امن بھی آسکتا ہے اور ہماری نئی نسل اپنی دیسی روایات و زبانوں سے واقف بھی ہو سکتی ہے ۔اس طرح ہم اس نوآبادیاتی ذہنیت میں بھی تبدیلی لا سکتے ہیں جو ہماری خود اعتمادی کو بُری طرح تباہ کر رہی ہے۔