تحریر : عنایت کابلگرامی کہا جاتا ہے کہ تعلیم انسان میں شعور پیدہ کرتی ہے، انسان کو انسان بناتی ہے، درست ہے، تعلیم اگر انسان کو انسان نہ بناسکے تو وہ کس کام کی دور جدید میں تعلیم کے ساتھ آج یہی معاملہ درپیش ہے۔ آج ہم ہر اس شخص کو جو کسی کالج یا یونیورسٹی کی سند نہ رکھتا ہو بڑی آسانی سے جاہل کہہ دیتے ہیں یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جاہلیت کی کچھ وضاحت کر دی جائے۔ جاہل آج جس معنی میں مستعمل ہے وہ بہت زیادہ درست نہیں عام طور پر ہمارے نزدیک جاہل کی تعریف یہی مان لی گئی ہے ،جس نے کسی مدرسے یا کالج و اسکول سے باقاعدہ تعلیم نہ حاصل کی ہو، لیکن یہ صحیح نہیں۔ قرآنی اصطلاح میں جاہل انہیں کہا گیا ہے جو حق شناسی کے باوجود کٹ حجتی پر قائم ہوں اورسورج کی طرح روشن دلائل کو مسترد کرتے ہوئے اپنی بات پراڑے رہیں۔ ماضی میں لوگ اکثر جاہل ہوتے تھے لیکن ان کی اخلاقی حالت اچھی رہتی تھی وہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں دل و جان سے شریک رہتے تھے، ان کے اندر جذبہ واخلاص ہمہ وقت موجزن رہتا تھا، ان میں آج کے تعلیم یافتہ افراد کی طرح نظریاتی طور پر کوئی سیاست کارفرما نہیں ہوتی تھی وہ اپنے فکر و عمل میں نہ صرف آزاد رہتے تھے بلکہ دوسروں کی آزادی کا خیال رکھتے تھے۔ پہلے کے زمانے میں تعلیم حاصل کی جاتی تو ایک اچھا شہری بننے کے لئے، کوئی ہونر سیکھا جاتا تو سیکھانے کے لئے ۔ مگر آج کل انسان دیگر فن مثلاً ترکانی ، گھل کاری ،کارپینٹنگ وغیرہ وغیرہ رزق کمانے کے لئے سیکھتے ہیں، ویسے ہی تعلیم بھی ایک ہونر ہے ، تعلیم حاصل کرکے آپ انجینئر ، پروفسر ، ڈاکٹر ، ٹیچرز یا ایک اچھا بزنس مین بن سکتے ہیں۔
پہلے تعلیم حاصل کرنے کے بعد انسان میں شعور آجاتاتھا ،اچھا کیا ہے اور غلط کیا ان سب کی تمیز تعلیم سے ممکن تھی، لیکن کیا آج بھی ایسا ہے ، ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں ہی ہوسکتا ہے، کیونکہ آج جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کے بالکل برعکس ہی ہورہا ہے۔آج تعلیم کا حصول صرف زر کیلئے ہے۔ آج ہر تعلیم یافتہ ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کیلئے ریس لگائے ہوئے ہیں، اس کے نتیجے میں انسانیت جہنم زار بن جائے تو بنے لوگ بھوکوں مررہے ہیں تو مریں انہیں کیا ۔ کچھ دنوں قبل فیس بک پر پڑوسی ملک ہندوستان کی ایک خبر پڑی گر چہ سوشل میڈیا کی خبروں میں صداقت کم ہوتی ہے اور ہندوستان تک ہماری رسائی بھی نہیں۔ لیکن اس خبر کو میں نے دروست اس لئے تسلیم کیا ، کیوں کہ آج کل یہ عام بات ہے ۔ پہلے اس خبر کو پڑھے۔ہندوستان کے دارلخلافہ دہلی کے قریب گائوں کے ایک نجی ہسپتال میں جیت سنگھ نامی شخص نے اپنی دس سالہ بچی کو تیز بخار کی حالات میں داخل کرایا ، ابتدائی طور پر ڈاکٹروں نے بچی کو ڈینگی بخار کا کہہ کر آئی سی او میں ایڈمیٹ کیا ،بچی کے والد جیت سنگھ نے بتایا کہ ہسپتال میں داخل ہوتے ہی ایڈوانس فیس کے طور پر میں نے ایک لاکھ روپے جمع کرائے، علاج شروع ہوتے ہی ہسپتال انتظامیہ خود ہی داوائیاں لانے میں مصروف ہوگئی، چار دن علاج کے بعد میری بچی کو ڈاکٹرز نہیں بچاسکے، ابھی ہم اسی صدمے میں تھے کہ ڈاکٹروں کی جانب سے آٹھ لاکھ روپے کا بل تھمادیا گیا، بل 91صفحات پر مشتمل تھا۔ لکھنے والا مزید لکھتا ہے کہ بل میں چار دن کے دوران 122سرنچ کے علاوہ 200داستانے بھی منگوائے گئے تھے۔
یہ کسی ایک اسپتال کا معاملہ نہیں اور نہ ہی کسی ایک ملک کا ہے ،یہ لعنت ہندستان سے زیادہ پاکستان میں پایا جاتا ہے،جبکہ ملک گیر سطح پر پھیلا ہوا یہ لعنت ناسور بنتا جارہا ہیں اور لوگ برسوں سے اسپتالوں کے اس استحصالی عمل سے پریشان ہیں کہیں کہیں یہ لعنت جب حد سے باہر ہوجاتا ہے تو اس کی خبر میڈیا تک پہنچ جاتی ہے اور عام لوگوں کو اس کا پتہ چل جاتا ہے، ورنہ زیادہ تر واقعات دبے ہی رہ جاتے ہیں۔
جیسے کہ مشہور معروف تجزیہ نگار انصار عباسی صاحب نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ( میری ایک قریبی عزیزہ کوٹانگ کی ہڈی میں مسئلہ تھا جس کا کوئی دو تین سال قبل راولپنڈی اسلام آباد کے ایک بڑے پرائیویٹ اسپتال میں ایک بڑے ڈاکٹر نے آپریشن کیا۔ کوئی تین لاکھ روپے فیس لی گئی۔ حال ہی میں خاتون جو ملک سے باہر تھیں معمول کے مطابق ایکسرے اور ایم آر آئی کرایا جسے ملک سے باہر ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ یہاں بھی اُسی بڑے پرائیویٹ اسپتال کے بڑے ڈاکٹر کو دیکھایا گیا۔ باہر کے ڈاکٹر نے کہا کوئی مسئلہ نہیں۔ بڑے پرائیویٹ اسپتال کے بڑے ڈاکٹر نے کہا مجھے کچھ مسئلہ نظر آ رہا ہے۔ خاتون کی بہن جو خود بھی ایک ڈاکٹر ہیں نے ایک اور مقامی اسپیشلسٹ سرجن کو ایکسرے اور دوسری رپورٹس دیکھائیں تو وہ بھی کہنے لگا کوئی مسئلہ نہیں۔ اس پر دوبارہ بڑے پرائیویٹ اسپتال کے بڑے ڈاکٹر سے رجوع کیا گیا اور اُسے بتایا گیا کہ دوسرے ڈاکٹرز کیا کہتے ہیں۔ اس پر بڑے ڈاکٹر برہم ہو گئے اور کہنے لگے میں نے خاتون کا پہلے آپریشن کیا اور میں جانتا ہوں کہ مسئلہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی خاتون مریضہ جو اُس وقت ملک سے باہر تھیں کی ڈاکٹر بہن کو بڑے ڈاکٹر نے دھمکی کے انداز میں کہا کہ آپریشن فوری کروانا ہے تو ٹھیک ورنہ بعد میں مرض بڑھ گیا تو میرے پاس مریض کو لے کر نہ آنا۔ بتا بھی دیا کہ پیسے تین چار لاکھ کے درمیان لگیں گے۔ بڑے ڈاکٹر کے بڑے نام کی وجہ سے فوری چند ہی دنوں میں مریضہ کو بیرون ملک سے بلوایا گیا اور دوسرے ہی دن بڑے اسپتال میں داخل کروا دیا گیا۔ دوسرے دن سرجری کے لیے مریضہ کو آپریشن تھیٹر پہنچایا گیا۔ بے ہوشی کی دوا دینے سے قبل مریضہ نے سن لیا کہ اُس کی بائیں ٹانگ کا آپریشن کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے جبکہ مسئلہ دائیں ٹانگ میں تھا۔ خاتون مریضہ چیخ اُٹھی کہ آپ لوگ کیا کر رہے ہیں جس پر اُس سے کہا گیا کہ نہیں آپریشن کے لیے تو بائیں ٹانگ کا لکھا ہوا ہے۔
مریضہ نے کہا کہ مرض مجھے ہے، میرا پہلے بھی آپریشن ہو چکا اس لیے بہتر ہے اپنا ریکارڈ درست کریں۔ اپنی متاثرہ ٹانگ کی بجائے مکمل صحت یاب ٹانگ کے آپریشن سے بچتے ہی، مریضہ کے کانوں میں ایک نرس کی طرف سے ڈاکٹر کوبتائی جانے والی یہ خبر پہنچی کہ خاتون کا ہیپاٹائٹس بی کا رزلٹ مثبت آیا ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ اس نئی خطرناک بیماری کے شاک کو ہضم کرتی اُس پر بے ہوشی کی دوا کا اثر ہو چکا تھا۔ اس نئی بیماری اور ٹیسٹ کے بارے میں آپریشن تھیٹر کے باہر موجود مریضہ کی ڈاکٹر بہن کو پتا چلا تو اُسے یقین نہیں آیا کیوں کہ حال ہی میں کرائے گئے تمام بلڈ ٹیسٹ کلئیر تھے۔ اُس نے بڑے اسپتال کی لیبارٹری سے بلڈ سیمپل لیے اور ایک دوسرے اسپتال کی طرف دوڑی۔ ابھی رستہ میں تھی تو بڑ ے ہسپتال سے فون آیا کہ بی بی واپس آ جائیں غلطی ہو گئی۔ بتایا گیا کہ کسی دوسرے مریض کا ٹیسٹ اُس مریضہ کے ساتھ میکس ہو گیا تھا جس کی وجہ سے غلط رپورٹ جاری ہو گئی۔آپریشن ہو گیا جس کے بعد بڑے ڈاکٹر نے بتایا کہ ٹانگ میں کوئی خرابی نہیں تھی لیکن جہاں مجھے شبہ تھا وہاں میں نے ہڈی کی گرافٹنگ کر دی۔ جب خون کی غلط ٹیسٹ رپورٹ کے بارے میں احتجاج کیا گیا تو ڈاکٹر نے جواب دیا ”I have taken them to task.” )
قارئین : ذہن پر زور ڈالئے آج سے زیادہ نہیں دس پندرہ برسوں قبل بچوں کی پیدائش عموما گھروں میں ہواکرتی تھی اس کے لئے گھریلو نرسیں معمولی اجرت پر یہ خدمات انجام دیا کرتی تھیں، لیکن بعد میں جب ترقیاتی منصوبوں کی تیز ہوائیں چلنے لگیں تو یہ کام ہسپتالوں میں ہی انجام پانے لگا اور دھیرے دھیرے ان گھریلونرسوں (دائیوں) کی چھٹی ہوگئی پھر ان پرائیوٹ ہسپتالوں نے عوامی استحصال کرنے میں سب کو پیچھے چھوڑدیا اب تو مضافات اور چھوٹے بڑے شہروں کے سارے شفاخانے ( جن کو اب ہم قصائی خانے کہتے ہیں) نارمل ڈیلیوری نہ کئے جانے پر متفق ہوگئے ہیں۔
یہ پڑھے لکھے تعلیم یافتہ مہذب لٹیرے صرف پروائیوٹ ہسپتالوں میں نہیں یہ پروائیوٹ اسکولوں اور کالجوں میں بھی پائیں جاتے ہیں۔ جن کے بچے پرائیوٹ اسکولز میں پڑھتے ہیں وہ ان سے اچھی طرح واقف ہونگے ، کبھی یہ فیس تو کبھی وہ فیس یہ جون جولائی کی فیس تو یہ امتحانی فیس اللہ بچائے ان کی قسم در قسم فیسوں سے ۔ اتنی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی ایسی بے شعوری اور لالچ کیوں ؟ کیوں کہ کسی نے درست کہا ہے کہ ”شعور کیلئے تعلیم سے زیادہ ظرف ضروری ہے ” ۔ ڈاکٹرا ور استاد یہ مسیحا ہوتے ہیں معاشرے کے لئے ، ” جب مسیحا ہی لٹیرا بن جائے ” تو معاشرے میں خیر ہی ختم ہوجاتی ہیں۔ اللہ پاک ایسے لوگوں کو ہدائت نصیب کریں(آمین)