تحریر: عبدالرزاق چودھری ٓآج جب پوری دنیا معاشی، اقتصادی، سائنسی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آسمان کی بلندیوں کو چھو کر کارہائے نمایاں سر انجام دے رہی ہے تو ہم سطحی قسم کے بحث مباحثوں میں اپنا اور اپنے ہم وطنوں کا قیمتی وقت ضائع کرنے کے درپے ہیں اس ضمن میں عمران اور ریحام کی طلاق کے معاملے کو مثال بنایا جا سکتا ہے۔اس معاملے کو لے کر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر وہ طوفان برپا ہوا کہ خدا کی پناہ اور رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کر دی۔
ہمارے لکھاریوں اور تبصرہ نگاروں کی نگاہ بلند کچن سے لے کر بیڈ روم تک محو پرواز رہی۔شادی سے طلاق تک کے ایک ایک لمحہ کو اس طرح کریدا گیا کہ کچھ وقت کے لیے تو دل میں یہ احساس جاگزیں ہو گیا گویا پاکستان کے آنکھیں کھول دینے والے مسائل میں یہ مسلہ سر فہرست ہے تبھی تو صف اول کے اینکرز اور صحافی مرچ مصالہ کی آمیزش کے سنگ تہ در تہ سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے میں سبقت لے جانے کے متمنی ہیں یہی وجہ ہے کہ اس بابت انکشافاف کا نت نئے انداز کے ساتھ وقوع پذیر ہونا معمول بن چکا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس واقعہ سے متعلق دلچسپی رکھنے والے اورچسکورے ہنوز مستعد و چوکس ہیں اور یہی سبب ہے کہ اس قصے کی اڑتی ہوئی دھول بیٹھنے کا نام نہیں لے رہی۔
Education
سوچنے کی بات ہے ہم بھی کیا شے ہیں ایک فضول اور غیر اہم موضوع کو لے کر کئی دن صرف کر دیے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری ترقی کی رفتار چیونٹی کی رفتار سے بھی کمہے۔افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہم حادثات اور سانحات کے وقت بھی انسانیت کی خدمت میں مشغول ہونے کے بجائے فضول اور غیر اہم موضوعات پر بحث و تمحیص میں گھنٹوں صرف کر دیتے ہیں اور بیہودہ قسم کے تبصروں سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ ہم اپنے اسی طرز زندگی اور سوچ کے انتشار کی وجہ سے مغربی ممالک اور بالخصوص امریکہ کی بالا دستی اور قومی امور میں مداخلت جیسے ناخوشگوار احساس سے جان چھڑانے میں ناکام ہیں۔غیر مسلم کمیونٹی اور ہماری کمیونٹی میں اخلاقی سطح پر کس قدر واضح فرق ہے ۔وہ انسانیت کی فلاح و بہتری کے لیے جستجو اور تحقیق میں مگن ہیں اور نت نئی نئی ایجادات ان کی اس میدان میں عظمت کا کھلا اعتراف ہے۔
ہم مسلمان جن کا طرہ امتیاز شرافت،صداقت ،دیانت اور حق گوئی و بے باکی جیسے اوصاف ہوا کرتے تھے کب کے ہو اہو چکے اب تو ان اوصاف کی جگہ خود غرضی ،بے حسی اور دولت کی ہوس لے چکی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ کسی بھی قوم کی تعمیر میں تعلیم کی اہمیت و حیثیت کیا ہے۔کس طرح تعلیم یافتہ معاشر ے ترقی و کامیابی کے زینے پھلانگتے ہوے اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرتے ہیں۔ ان کا طریقہ تعلیم شخصیت کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے اور شخصی زندگی کے ہر پہلو کی تعمیر میں معاون و ممد ثابت ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے پیارے وطن کا نونہال جب ہاتھوں میں علم کی روشنی تھامے کتابوں کے سنگ سکول کے دروازے پر دستک دیتا ہے تو والدین اسی دن اس کے ذہن میں ایک بات ڈال دیتے ہیں کہ تعلیم کا حصول برائے ملازمت ہے اور ننھے دماغ میں ہمیشہ کے لیے یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ تعلیم محض چارمنگ ملازمت کے حصول کا دروازہ ہے۔
معاشرے میں بلند منصب،مرتبہ و حیثیت کے مالک بننے کی سیڑھی ہے اور نتیجے کے طور پر ہمارا نوجوان جب تعلیمی مراحل طے کر لیتا ہے تو وہ ہر حال میں ملازمت کے حصول کا متمنی ہوتا ہے چاہے اسے اپنا مطلوبہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ناجائز طریقہ کار ہی کیوں نہ اختیار کرنا پڑے ۔ وطن عزیز میں تعلیم کو ملازمت کے ساتھ نتھی کر دینے کا امر تشویشناک ہے کیونکہ سوچ کے اس انداز کے فروغ سے ہماری نسلوں میں وہ اوصاف پیدا نہیں ہو پاتے جو حقیقی معنوں میں تعلیم کی سیرابی کا طرۂ امتیاز ہے۔تعلیم برائے ملازمت کا نظریہ نوجوانوں کے مفید شہری بننے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔اس سطحی سوچ کے زیر سایہ نوجوان لالچ اور خود غرضی کے جامہ میں ملکی تعمیر میں حصہ لینے کی بجائے کرپشن کی کشتی میں سوار لوگوں کے ہمرکاب ملکی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالنے کے بجائے وطن عزیز کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں مگن ہو جاتے ہیں۔
Society
قوم کا وہ درد مند طبقہ جو محب وطن ہے جو ملک و ملت کو خود دار،خودمختار اور خوشحال دیکھنا چاہتا ہے ان حالات میں مضطرب ہے اور شدید تکلیف اور کرب میں مبتلا ہے کہ ملک کے نوجوان کی سوچوں کا دھارا کس جانب گامزن ہے ۔ ان کے خیال میں بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے بعد پاکستان کو آج تک ایسا کوئی حکمران نصیب نہیں ہوا جو اپنے ذاتی مفاد کو پس پشت ڈال کر عوامی مفاد کی خاطر اپنا تن من دھن نچھاور کر دے ۔ جو بھی پاک دھرتی پر مسند اقتدار کی لذت سے سرشار ہوا اس نے سب سے پہلے ملک کو دونوں ہاتھوں سے خوب لوٹا اور پھر جب اس کی تجوریاں ناکوں ناک بھر گئیں تو نام نہاد مسیحا کا روپ دھار کر عوام کو دلفریب وعدوں سے بے وقوف بنانے کے ہنر میں مشاق ٹھہرا۔
وطن عزیز کے اقتدار کے ایوانوں میں اگر آمر سیاہ و سفید کے مالک بنے تو انہوں نے بھی تعلیمی سہولتوں کے فقدان سمیت عوام کے بنیادی حقوق کو سلب کیا اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے غیر ملکی آقاوں کی غلامی میں پیش پیش رہے ان کی ہدایات پر من و عن عمل کیاجبکہ اس بات سے قطعی بے نیاز ہو کر کہ اس غلامی کے نتیجہ میں آنیوالے وقت میں8 وطن عزیز کیسے کیسے مسائل سے دوچار ہو گااور قوم طرح طرح کے عفریت سے نبرد آزما ہو گی اور وقت نے ثابت کیا کہ ان آمروں کے اقتدار کے حصول کی خاطر غیر ملکی طاقتوں کی جی حضوری میں کیے گئے اقدامات نے پاکستان کے معتبر اداروں سمیت ملکی سلامتی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
یہ بے پرواہ حکمران تو اپنا دور حکومت عیش و نشاط میں گزار گئے لیکن ان کے بعد آنیوالے حکمرانوں اور عوام کو ان کی بوئی ہوئی کانٹوں کی فصل کو کاٹنا پڑا ۔یہ بات تو شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ گاہے گاہے طالع آزماوں کی آمد نے ملک کی لٹیا ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن اقتدار کی دوڑ میں شامل نام نہاد جمہوری حکمران تو آمروں سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے۔
جمہوری حکمرانوں نے بھی بنیادی اور اہمیت کے حامل شعبوں سے صرف نظر برتی جن میں بالخصوص تعلیم اور صحت کے ادارے شامل ہیں اور الٹا ہر ادارہ کو اپنا ذاتی ملازم بنانے کی سعی میں بیشتر اداروں کا بیڑہ غرق کر دیا۔ ہم من حیث القوم دعا گو ہیں کہ خدائے بزرگ و بر تر وطن عزیز کو ایسا حکمران نصیب کرے جس کا دل ملک و قوم کے درد سے لبریز ہو۔وہ وژ نری اور مرقع فہم و فراست ہو ۔وہ عمرانی و سماجی علوم سے بہرہ ور ہو ۔ ملکی اور قومی مسائل سے بخوبی آگاہ ہو اور ان مسائل کو حل کرنے کی مکمل قدرت رکھتا ہو۔