تعلیم سب کے لیے مگر وسائل ۔۔۔؟

Education

Education

تحریر: محمد ریاض پرنس
کسی بھی ملک کی ترقی اس ملک کے بہترین تعلیمی نظام پر منحصر ہو تی ہے ۔دنیا میں اگر کسی ملک نے ترقی کی ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ اس ملک کا تعلیمی نظام ہے ۔اگر تعلیمی ڈھانچہ اچھا ہو گا تو اس ملک کی تعلیمی ترقی ہو گی اور اگر تعلیمی ڈھانچہ اچھا نہ ہو گا تو پھر حال ہمارے ملک جیسا ہی ہو گا۔اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ تعلیم ہے۔اس کے حل کے ہماری حکومت کوئی ٹھوس پالیسی نہیں بنا رہی ۔ اور نہ اس پر اچھے طریقے سے کام ہو رہا ہے ۔ جب تک تمام اداروں میں یکساں سلیبس نہیں ہو گا تب تک ہم تعلیم میں اچھا نام پیدا کرنے میں ناکام رہیں گے۔

ہمارے ملک میں ہر روز تعلیم کی شرح کو بڑھانے کے لئے پالیسیاں تو بنتی ہیںمگر چند دن کے واہ ویلے کے بعد وہ پالیسیاں ردی کا ڈھیر ہو جاتی ہیں۔اور بنانے والے بس کاغذوں میں ہی اس کو کامباب کر لیتے ہیں۔ہماری حکومت اور نمائندوں کو چاہئے کہ جب وہ ایجوکیشن کے حوالے سے کوئی پالیسی بنائیں تو اس میں غریبوں اور مزدوروں کے بچے کوبھی یادرکھا جائے وہ اس لئے کہ پاکستان کی کل آبادی کا تقریباً70فیصد حصہ دیہی علاقوں میں شامل ہے اور تعلیم کی شرح ان علاقوں میں ناقص ہے ۔وہ اس لئے کہ ان علاقوں میں رہنے والے لوگ اپنے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کروانے سے قاصر ہیں ۔ خاص کر لڑکیوں کو تعلیم نہیں دلواتے ۔ ان میں شعور نہیں ہوتا کہ اگر لڑکیوں کو تعلیم دلوائیں تو کل کو یہ ایک اچھی ماں بن سکے گی ۔ اور اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کے لئے جدوجہد کر سکے گی ۔ جس سے تعلیم کی شرح میں اضافہ ہو گا۔ حکومت کو چاہئے کہ گورنمنٹ کے اداروں کو پرموٹ کرے کیونکہ ان کا رزلٹ پرائیویٹ اداروں سے بہت پیچھے ہے۔ اورپرائیویٹ اداروں کا حال یہ ہے کہ بچوں کو پڑھانے کے لئے لاکھوںمیں فیس وصول کی جاتی ہے ۔

Education For All

Education For All

حکومت کو چاہئے کہ ایجوکیشن فار آل کا موٹو اپنائے جس کے ذریعے تمام اداروں کو یکساں وسائل ملنے چاہئیں اور پورے پاکستان میں ایک ہی پالیسی پر عمل کروایا جائے ۔ تاکہ تعلیم کی شرح کو بڑھایا جا سکے ۔ اور خاص کران علاقوں میں موجود بھٹہ جات پر موجود لیبر کے بچوں کو تعلیم کے لئے خصوصی تعلیم کا بندوبست کیا جائے ۔ اور ان کو اپنے والدین کے ساتھ کام نہ کرنے دیاجائے گا۔وہ بچے جن کی عمر چار سال سے زائد ہے ان کو سکول میں فری داخلہ دلونے کے لئے کمپئین چلائی جائے ۔مگریہ پالیسی صرف پنجاب کے لئے ہی نہیں بلکہ یہ پالیسی سارے پاکستان کے لئے ہونی چاہئے تاکہ اس پالیسی کے ذریعے تما م ملک کے بھٹہ چائلڈ لیبر کو فائدہ مل سکے۔

تاکہ ان کے والدین کام میں اپنے بچوں کو شامل نہ کریں اور ان کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے سکول بھیجیں ۔تب جا کر ممکن ہے کہ یہ مسئلہ حل ہو سکے گا۔ اگر اس طرح رہا تو انہوںنے اپنے بچوں سے کام تو کروانا ہے پیٹ پالنے کے لئے کچھ نہ کچھ توکرنا پڑتا ہے ۔ کون سا کسی نے ان کو کھانے کے لئے کچھ دے دینا ہے ۔ اور کون سے ان کے بنیادی حقوق پورے کرنے ہیں۔ پیٹ بھرنے کے لئے مزدوری ،اور محنت تو کرنی پڑتی ہے اسی لئے بچے سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ اس لئے یہ بچے ہوٹلوں اور ورکشاپوں میں کام کرتے ہیں ۔ اور تعلیم حاصل نہیں کر پاتے۔

ہماری اور ہماری حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم تعلیم کے ا صول کے لئے کچھ ایسی مہم کا آغاز کریں جس سے تمام ملک کے غریب لوگوں کے بچوں کویکساں فائدہ مل سکے ہمارے ملک میں سب سے بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ تعلیم دینے کے لئے بڑے بڑے ادارے تو بنائے جا رہے ہیں ۔ مگر معیاری تعلیم دینے کے لئے کوئی کچھ نہیں کر رہا ۔تعلیم دن بدن مہنگی ہوتی جا رہی ہے مگر رزلٹ صفر ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم کا نظام ہی درست نہیں ۔ جس ادارے کا جو دل چاہتا ہے وہ سلیبس پڑھا رہا ہے ۔ ہر ادارہ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لئے اپنی ہی پالیسیوں پر عمل پہرہ ہے۔ہر طرف انگلش انگلش ،اردو عربی،اور اسلامیات کو ہم بھولتے جا رہے ہیں ۔دنیا وی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ہم دینوی علوم سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینوی تعلیم بھی بہت ضروری ہے ہمیں اس پر بھی زور ر دینے کی ضرورت ہے ۔ اس میں حکومت کی کوئی ذمہ داری نظر نہیں آتی ۔ اور نہ ہی کوئی حکومتی پالیسی نظر آتی ہے ۔ اگران حالات کا مقابلہ کرنا ہے تو تعلیم کی شرح کو بڑھانے اور اچھی اور معیاری تعلیم کے لئے سب کے لئے ایک ہی سلیبس لاگو کرنا ہو گا۔

Education Facility

Education Facility

ہمارے ملک کا تقریباً 58 فیصد حصہ ایجوکیٹرز پر مشتمل ہے ۔ اور باقی 42 فیصد حصہ ناخواندگی کا شکار ہے۔ ہمارے ملک میں یہ نہیں کہ تعلیم کی سہولت میسر نہیں بلکہ ہمارے ملک کے لوگوں میں شعور نہیں ہے کہ اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کر وا سکیں ۔ پاکستان کا زیادہ تر حصہ دیہات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ہمارا ملک تعلیم کے شعبہ میں دوسرے ممالک سے پیچھے ہے ہمارے ملک میں زیادہ تر لو گ یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو تعلیم حاصل کر کے کیاحاصل ہو گا۔ بہتر ہے شروع سے ہی اپنی روزی کمانے کے لئے کچھ ہنر وغیر ہ سیکھ لیں ۔ کچھ حد تک ان کی یہ با ت درست بھی ہے ۔ کیونکہ ہمارے ملک کے موجودہ حالات جو چل رہے ہیں ان کو اگر دیکھا جائے تو ہماری حکومت ایک طرف تو تعلیم کی شرح کو بڑھانے کے لئے اقدامات کر رہی ہے تو دوسری طرف جن کے پاس تعلیم ہے ان کے لئے وسائل موجود نہیں ہیں ۔ اگر کبھی کوئی جاب نکلتی بھی ہے۔تو اس پر سفارش اور امیر لوگوں کو فائز کر دیا جاتا ہے ۔اور غریبوں کے لئے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ۔اوران کو NTS میں رولایا جاتا ہے ۔

ایک طرف تو ہماری حکومت ایجوکیشن فار آل کا نعرہ لگا رہی تو دوسری طرف وہ ایجوکیٹرز جو ڈگریاں اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں ان کا کوئی کیرئیر دیکھائی نہیں دیتا۔ اس وقت تقریباً25سے 30فیصدایسے لو گ ایجوکیٹرز ہیںجن کو وسائل میسر نہیں آرہے ۔ وہ روزگار کی تلاش میں بے راہ پروری کا شکار ہو رہے ہیں ۔ان کے پاس ڈگریاں تو ہیں مگر ان کو نوکری یا روزگار کی تلاش میں دردر کی ٹھوکریں کھانا پڑ رہی ہیں ۔اس ڈر اور خوف کی وجہ سے مزدور طبقہ اپنے بچوں کو تعلیم حاصل نہ کروانے کے لئے قاصر ہیں ۔کیونکہ اس مہنگائی اور بے روزگاری کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ لوگ اپنے بچوں کا مستقبل تاریک کر دیتے ہیں ۔اور یہ ڈگریاں اٹھانے والے پاکستان کے مستقبل کے معمار چور،ڈاکو،دہشت گرد بن جاتے ہیں۔کیا یہ ہے ہماری ذمہ داری ہم اپنے ہی بچوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

ملک کے ہر فرد کو تعلیمی شرح کو بہتر بنانے کے حکومت کے ساتھ تعاون اور اپنے علاقوں میں لوگوں کو شعور دینے کی ضرورت ہیں۔حکومت کو چاہئے کہ وسائل کی فراہمی کے لئے سب کو موقع فراہم کیا جائے نہ کہ امیروں کو نوازا جائے اور غریبوں کیلئے مسائل کھڑے کیے جائیں ۔کیونکہ علم ایک ایسی لازوال دولت جس کو چور چوری نہیں کر سکتا ۔ اور نہ کسی کے ساتھ اس کو بانٹا جا سکتا ہے ۔ ہمیں بس اپنے اردگرد کے بچوں کو سکول جانے کے لئے ترغیب دینی چاہئے تاکہ وہ بچے سکول جا سکیں ۔ اور علم حاصل کر کے اپنے والدین اور اپنے ملک کا نام روشن کر سکیں ۔

Riaz Prince

Riaz Prince

تحریر: محمد ریاض پرنس
03456975786