تعلیمی انقلاب اور ڈاکٹر قریشی

Education

Education

تحریر : روہیل اکبر

کچھ لوگ بڑے نایاب ہوتے ہیں اپنے کردار اور عمل سے وہ دوسروں کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا رنگ بھی انکے رنگوں میں شامل کردیتے ہیں ایسے لوگ اگر سیاست میں آئیں تو انقلاب لے آتے ہیں تعلیم کے شعبہ میں آئیں تو قوموں کی تقدیر بدل دیتے ہیں اور ہمارے پاس ایسے افراد کی کمی نہیں صرف انہیں ڈھونڈنے کی ضرورت ہے ایسے ہی افراد کے لیے ضیاء جالندھری نے پوری غزل کہہ دی کہ رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے ایسا ہی ایک فرد ڈاکٹر اعجاز قریشی بھی ہے جو اس وقت پاکستان میں تعلیم کے شعبہ سے منسلک ہے ویسے تو اس وقت پاکستان میں ایچ ای سی سے تسلیم شدہ سرکاری، نجی، فوجی، اور پیشہ ورانہ یونیورسٹیاں 188 ہے جن میں سے ایک بھی یونیورسٹی ورلڈ رینکنگ میں پہلے پانچ سو نمبروں میں کہیں بھی نظر نہیں آتی اور رہی سہی کسر ان افراد نے پوری کر رکھی ہے جوروزی روٹی کے لیے استاد تو بن گئے مگر روحانی باپ نہ بن سکے جن کا مقصد صرف ہر مہینے کے آخر میں تنخواہ وصول کرنا ہی رہ گیا۔

نہیں یقین تو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسداد منشیات میں پارلیمانی سیکرٹری برائے تعلیم وجیہہ قمر کے سنسنی خیز انکشافات پڑھ لیں کہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں منشیات فروخت ہورہی ہے بچوں کومنشیات پر لگایاجارہاہے قائداعظم یونیورسٹی میں باقاعدہ ایک ڈرگ مافیا ہے جس کی وجہ سے قائداعظم یونیورسٹی میں منشیات فروشی کنڑول نہیں ہورہی ہے جبکہ یونیورسٹی سے پوچھاجاتاہے تو سب اچھے ہی کی رپورٹ دیتے ہیں باوجود سب کوپتہ ہے کہ یونیورسٹی اور باہر کھوکھوں پر منشیات باآسانی دستیاب ہے یونیورسٹی کے حالات بہت خراب ہیں پتہ ہونے کے باجود ہم کچھ نہیں کرسکتے ہیں تعلیمی اداروں میں منشیات استعمال ہوتی ہے مگر ان اداروں سے پوچھا جائے تو سب اچھا ہے کی رپورٹ دیتے ہیں یونیورسٹیوں کے حالات بہت خراب ہیں ہم نے اپنے بچوں کو تباہ کردیا ہے منشیات فروش ارب پتی بن گئے ہیں ان کو کوئی نہیں پکڑتا ہے بلوچستان میں منشیات کی فیکٹریاں لگی ہیں۔

پاکستان میں 6سے8ملین لوگ منشیات کے عادی ہیں منشیات پینے والے یا بیچنے والے جب پکڑے جاتے ہیں تو پاکستان میں موجود 116 جیلوں میں سے کسی ایک میں چلے جاتے ہیں اور وہاں انکی کوئی تربیت نہیں ہوتی ان سب جیلوں میں بحالی مراکز بنائے جائیں تو مسائل میں کمی ہوسکتی ہے یہی منشیات اور دیاڑی دار اساتذہ ہمیں اپنے مقصد سے پیچھے لیکر جارہے ہیں مسلمان کبھی تعلیم میں سب سے آگے تھے دنیامیں اس وقت 28092 سے زائد یونیورسٹیاں قائم ہیں اور سب سے پہلی یونیورسٹی ایک خاتون مسلمان نے بنائی تھی اس یونیورسٹی کو دنیا کی پہلی اور قدیم ترین یونیورسٹی ہونے کا اعزاز حاصل ہے یونیسکو کے ریکارڈ کے مطابق پچھلے 1200 سالوں میں ایک دن کیلئے بھی یہ یونیورسٹی بند نہیں ہوئی ہے. دنیا میں سب سے پہلے تعلیمی ڈگری کا اجرا بھی اسی یونیورسٹی نے کیا تھا اس یونیورسٹی کی جامع مسجد میں بیک وقت 22 ہزار افراد کے نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے بلا تفریق نسل و مذہب دنیا کے کونے کونے سے لوگ اس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔

علامہ ابن خلدون،لسان الدین الخطیب، محمد الادریسی سمیت نامور مسلم و غیر مسلم اسکالر اسی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئے تھے اس یونیورسٹی کا نام گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی کے طور موجود ہے اس یونیورسٹی کا نام ‘جامعہ القرویین’ ہے یہ مراکش کے فاس شہر میں قائم ہے اس یونیورسٹی کی بنیاد ایک مسلمان رئیس زادی فاطمہ بنت محمد فہریہ نے 245 ہجری میں رکھی تھی اسے بنانے میں اس نے اپنا ذاتی سرمایہ لگایا اس یونیورسٹی کو تعمیر ہونے میں 18 سال لگے جب کہ اس دوران فاطمہ مسلسل روزے رکھتی تھی فاطمہ کی بہن نے اپنے ذاتی خرچ سے یونیورسٹی سے ملحق مسجد بنائی یونیورسٹی اور مسجد کی عمارتیں مسلم فن تعمیر کی خوبصورت شاہکار ہیں مختصر یہ کہ دنیا کی پہلی یونیورسٹی ہم مسلمانوں نے بنائی بلکہ مسلمان عورتوں نے بنائی اور یہی مسلمان ہماری پہچان بھی ہیں میں شروع میں ذکر کیا تھا ڈاکٹر اعجاز قریشی کا جو اس وقت لاہورکے علاقہ گوالمنڈی میں بچوں کو اعلی تعلیم کے ساتھ ساتھ اعلی اخلاقی اقدار سکھانے کے لیے موجود ہیں۔

یہ وہی علاقہ ہے جس نے ملک کو تین بار کا وزیراعظم دیامگر اس عالقے کی حالت نہ بدلی اور نہ ہی سدھری آج بھی یہ علاقہ قیام پاکستان سے پہلے کا ہی محسوس ہوتا ہے اسی علاقے کے باسیوں کی زندگیوں میں انقلاب لانے کے لیے یہاں یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا میرے دوست افتخار نے ڈاکٹر اعجاز قریشی سے ایک ملاقات رکھی جب انہوں نے باتیں کی اور اپنا ماضی بتایا کچھ تلخ حقائق بیان کیے کچھ روشنی کی باتیں کی تو امید پیدا ہوئی کہ اگر ایسے استاد ہمیں میسر آجائیں تو حقیقت میں ہماری کایا پلٹ سکتی ہے تعلیم کا پیشہ روزگار تو ہے ہی ساتھ ہی ساتھ ایک مشن بھی ہے اور ایک جذبہ بھی ڈاکٹر صاحب نے اپنا ایک قصہ سنایا کہ باہر کی یونویرسٹی میں جب میں پڑھاتا تھا تو اس وقت پوری کلاس میں سے ایک بچہ فیل ہوگیا وہ بھی غیر حاضریوں کی بدولت مگر باقی سب بچے اچھے نمبروں سے پاس ہوگئے جس پر مجھے ڈین نے بلایا اور میں سمجھا کہ شائد وہ مجھے کوئی شیلڈ یا انعام دیگی کہ سوائے ایک بچے کے سبھی پاس ہوگئے مگر ڈین نے ایک بچے کے فیل ہونے پر سخت برا منایا اور ایک ماہ مجھے ہر روز چار گھنٹے اسے پڑھانا پڑا تاکہ وہ پاس ہوجائے یہاں پوری کی پوری کلاس فیل ہوجائے تو کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ڈاکٹر صاحب نے یہاں پر لائبریری ہر کسی کے لیے 24گھنٹے کھلی رکھنے کا بھی کہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ چھوٹے دوکانداروں کو انگریزی بول چال مفت سکھانے کا بھی اعلان کیا ہے ایسے افراد ہمارے لیے روشنی کا مینار ہیں اور پنجاب میں وزیراعلی سردار عثمان بزدار فروغ تعلیم کے پہلے سے ہی کوشاں ہیں جنہوں نے ہر ضلع میں یونرسٹی بنانے کا عزم اور اعلان کررکھا ہے جو پنجاب میں تعلیمی انقلاب کا پیشہ خیمہ ہے پنجاب حکومت اگر ڈاکٹر اعجاز قریشی جیسے افراد ڈھونڈ کر انہیں تعلیمی انقلاب کے لیے ذمہ داری دے تو ہم اپنی کھوئی ہوئی میراث کو دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر