سکولوں میں ڈھائی سو میلین بچے تعلیم حاصل کرنے میں ناکام۔ پاکستان میں سکول کے اخراجات برداشت نہ کرنے پر بچوں کو مدارس میں بھیج دیا جاتا ہے، یونیسکو نے الارم دیا ہے کہ دنیا میں ایک ارب میں سے ایک چوتھائی لکھنا پڑھنا اور حساب کتاب کرنا نہیں جانتے حالانکہ وہ چار سال تک سکول جاتے رہے ہیں۔
تنظیم کی رپورٹ کے مطابق عالمی سکولز کی ناکامی پر تقریباً ایک سو ارب یورو کی لاگت کا تخمینہ لگایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں والدین سکول کے اخراجات نہیں اٹھا سکتے اسلئے بچوں کو غیر سرکاری جگہوں پر بھیج دیا جاتا ہے جیسے کہ مدارس وغیرہ میں رضا کاروں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر چھ چھ گھنٹے پڑھنا ہوتا ہے لیکن انہیں کچھ سکھایا پڑھایا نہیں جاتا، ان میں اکثریت ان بچوں کی ہے جو ٹرائبل ایریا چھوڑ کر چھوٹے بڑے شہروں میں منتقل ہوئے، یہ انتہائی خراب صورت حال ہے علاوہ ازیں مجموعی طور پر پورے پاکستان میں تعلیمی اداروں کی حالت بہت بری ہے۔
یونیسکو کی حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان ان دس ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں پرائمری سکول کی حالت بد تر ہے دوسرے نو ممالک میں جنوبی افریکا کے ملک ہیں ۔رپورٹ کے مطابق ایک تہائی پانچویں کلاس کے بچوں کو انگریزی کا جملہ تک نہیں آتا حالانکہ وہ نجی سکولز میں ہوتے ہیں ، جبکہ عام طور پر انگریزی کی تعلیم دوسری کلاس سے شروع ہوتی ہے۔
یہ وہ اعداد و شمار یا تفصیلات ہیں جو یونیسکو نے جمع کی ہیں تاکہ ان کی تشریح کر کے تعلیم پر عالمی رپورٹ تیار کی جائے اور یوں اس اورگنائزیشن نے دوہزار دو سے یہ بیڑا اٹھا رکھا ہے کہ سال میں ایک بار دنیا کے تعلیمی نظام پر ثبوت کے ساتھ رپورٹ تیار کرے اب تک کی تمام رپورٹ منفی ہے ۔ گزشتہ دنوں یونیسکو نے تازہ رپورٹ کے نتائج شائع کئے اس کے مطابق خطرناک نتائج سامنے آئے ہیں کہ ڈھائی سو میلین بچے لکھنا پڑھنا اور حساب کرنا نہیں جانتے حتیٰ کہ وہ چار سال تک سکول جاتے رہے ہیں ماہرین نے ایک بڑے پیمانے پر اسے سکولز کی ناکامی بتایا ہے اور سالانہ اخراجات کا تخمینہ ایک سو ارب یورو بتایا گیا، رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ کتنے غیر مساوی چانس دنیا میں تقسیم کئے گئے ہیں ۔ معلومات کے مطابق ایک سو پچہتر میلین نوجوان یعنی ہر چوتھا فرد ترقی پذیر ممالک میں پورا جملہ نہیں بول سکتا ، خواتین میں ایک تہائی کی تعداد ریکارڈ کی گئی ہے جو مغربی اور جنوبی ایشیا کے حصوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ امیر ریاستوں میں اس کے برعکس ہے۔نیوزی لینڈ میں تقریباً تمام طالب علم کو گریڈ چار اور آٹھ حاصل ہے جبکہ دو تہائی طالب علموں کا تعلق غریب خاندانوں سے ہے۔
Unesco
یونیسکو کے مطابق سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سکولوں کا معیار بہت خراب اور استاد مناسب طریقے سے تربیت یافتہ نہیں ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ عالمی برادری کو تعلیم کے معیار پر زیادہ توجہ دینی چاہئے تاکہ پرائمری کے بچوں کو اچھی بنیادی تعلیم حاصل ہو اس کے لئے دوہزار پندرہ تک 5,2میلین اساتذہ کو بھرتی کیا جائے ۔ گلوبل مانیٹرنگ رپورٹ نے ایک ٹائٹل۔ایجوکیشن فار آل۔ کے نام سے متاثرہ تعلیمی ممالک کی حکومتوں کو التجا کی ہے کہ اس پیشے کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس طرف متوجہ ہوں اور یہ پیشہ دلچسپی کا باعث بنے مصنیفین نے خاص طور پر کہا ہے کہ اس پیشے کو خواتین کے لئے زیادہ سے زیادہ پر کشش بنانے کی ضرورت ہے، بعض ممالک میں بہت کم اساتذہ موجود ہیں درس اور تدریس کے اس پیشے میں اتنا معاوضہ ہونا چاہئے کہ اگر کوئی اس پیشے کو قبول کرے تو اس تنخواہ سے زندگی گزار سکے اور اساتذہ بھی اتنے تعلیم یافتہ ہوں کہ ایک سے زائد زبانوں میں تعلیم دے سکیں۔ ایجوکیشن فار آل کے ٹائٹل کو ایک سو ساٹھ سے زائد ممالک نے اتفاق کیا ہے اور دوہزار پندرہ تک اس پر عمل درامد کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے تاکہ متاثرہ ممالک کے بچوں کی تعلیمی کمزوری دور ہو اور بذریعہ تعلیم ایک نئی زندگی کا آغاز کریں۔
زمانہ بیت گیا لیکن پاکستان میں تعلیم کو عام نہیں کیا گیا آج بھی دیہاتوں اور قصبوں میں سکول نام کی کوئی چیز نہیں اگر ہے تو کوئی ڈھنگ اور ذمہ داری سے پڑھانے والا نہیں جب سکول کے صحن میں بھیڑ بکریاں گدھے اور بھینسیں باندھی جائیں گی یا منشیات فروشوں کے اڈے قائم ہونگے تو معصوم بچے وہاں کون سی تعلیم حاصل کریں گے علاوہ ازیں تعلیم دینے کے لئے تعلیم یافتہ ہونا اشد ضروری ہے نہ کہ کسی نے رشوت دے کر دس بارہ جماعت کا سرٹیفیکیٹ حاصل کر لیا اور اسی ذریعہ سے استاد بن بیٹھا تو کیا وہ استاد کہلائے گا ؟ جبکہ اسے خود تعلیم کی ضرورت ہے وہ کسی کو کیا تعلیم دے گا ۔ داڑھی رکھ لینے سے کوئی قاری، مفتی یا قرآن کو حفظ کرلینے سے کوئی حافظ ، مولوی یا عالم دین نہیں بن سکتا۔
دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے دینی تعلیم حاصل نہیں کی لیکن جب ان میں شعور پیدا ہوا کہ مذاہب کا مطالعہ کیا جائے اور مطالعہ کے بعد وہ مذاہب کی طرف راغب ہوئے۔ کسی انسان کو زبردستی مذہب کا پیرو کار نہیں بنایا جا سکتا، مذہبی معاملے میں انسان آزاد ہے اور جس مذہب کو چاہے قبول کرے۔ جب تک پاکستان میں مذہبی اور دنیاوی تعلیم کو علیحدہ نہیں کیا جائے گا بچے کشمکش کا شکار رہیں گے کہ پہلے کس تعلیم پر عبور حاصل کریں مذہبی یا دنیاوی، دنیا کے کسی ملک کی تاریخ میں یہ دونوں یکجا نہیں ہیں۔
کئی سال پہلے مغربی ممالک نے قانون بنا دیا تھا کہ مذہب کو کبھی دنیاوی مسائل میں استعمال نہیں کیا جائے گا اور یہ ہی ان کی ترقی کا راز ہے۔آج کل پاکستان میں تعلیم کے موضوع پر بہت کچھ سننے اور پڑھنے کو مل رہا ہے، لیکن جس ملک میں قانون جیسی بنیادی چیز نہیں ہے وہاں تعلیم جیسے آعلیٰ موضوع پر لکھنا یا بات کرنا بے وقوفی ہے، ہم سب لکھنے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ تعلیم کا مقام کتنا اونچا ہے لیکن کیا وہ لوگ بھی جانتے ہیں جو اس ملک کے مالک ہیں ؟ اور کیا وہ دو ہزار پندرہ تک تعلیم کو عام کریں گے۔