طالب علم خواہ کسی بھی کلاس میں ہو معاشرے میں انتہائی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔کیوں کہ علم حاصل کرنے کی خوبی ہی اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ خاص طور پر آج کے دور میں تو ہر شخص کی ہی یہ خواہش ہے کہ لوگ اسے پڑھا لکھاکہیں یا سمجھیں۔ اور وہ لوگ جو ماضی میں مناسب تعلیم حاصل نہ کرسکے وہ آج احساسِ کمتری کا شکار ہیں۔ ان میں بڑی شدت سے یہ احساسِ محرومی پایا جاتا ہے کہ کاش وہ بھی پڑھے لکھے ہوتے ،معاشرہ انہیں ایک پڑھے لکھے انسان کی حیثینت سے دیکھتا۔ وہ پڑھائی لکھائی کے معاملے یا کسی نئی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے سلسلے میں دوسروں کے محتاج نہ ہوتے اس طرح کی اور بہت سی باتیں ایک ان پڑھ انسان کے دماغ میں بھٹکتی پھرتی ہیں کیونکہ کوئی بھی شخص خود کو جاہل کہلوانا پسند نہیں کرتا ۔
لیکن خود کو تعلیم یافتہ کہلوانے کے لئے تعلیم حاصل کرنا بھی تو اول شرط ہے ۔کیو نکہتعلیم ہی انسان کے علم میں اضافہ کرتی ہے اس کے شعور کو وسیع کرتی ہے اسے تہذیب سکھاتی ہے اور اس کے علاوہ تعلیم ہی کسی بھی قوم کی ترقی میں ایک ریڑھ کی ہڈی کی حیشیت رکھتی ہے۔اور اچھا تعلیمی نظام انسان کو ہمیشہ کامیابی کی طرف لے کر جاتا ہے۔اور اگر ہم آج کی نسل کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریںگے تو مستقبل میں یہ ایک تعلیم یافتہ قوم بن کر ابھرے گی۔دراصل تعلیم ایک ایسا طاقتور ترین ہتھیار ہے کہ اس سے انسان دنیا تک بدل سکتا ہے اور اس ہتھیار کو اٹھانے والا یا استعمال کرنے والا شخص ایک طالب علم ہوتا ہے۔
“International Students Day” طالب علموں کا عالمی دن ہر سال 17نومبر کو دنیا بھر میں منایا جاتاہے۔اس دن کا اہم مقصد طلباء کے کردار اور ان کی اہمیت اور ملک میں معیاری تعلیمی نظام کو فروغ دینے کی ہر ممکن کوشیش کرناہے۔یہ دن پہلی مرتبہ 1941ء میں لندن میں انٹرنیسنل سٹوڈنٹس کونسل کے زیرِ اہتمام منایا گیا۔اس دن کی تاریخ کچھ اس طرح ہے کہ 1939ء میں دوسری جنگ عظیم کے آغاز میں جب نازی فوجی دستوں نے ‘ چیکوسلواکیہ ‘ پر حملہ کیا اور آمریت کا نفاذکیا۔تو وہاں کی طلباء تنظیموں نے اپنی آزادی اور جمہوریت کے لئے ایک جنگ لڑی اور اس غاصبانہ قبضے کے خلاف خوب مظاہرے کئے۔
تو تب ناذی فوجیوں نے9 طلباء کو پھانسی دے دی ،وہاں تمام یونیورسٹیاں مکمل بند کر دیں اور بہت سے طلباء کو حراستی کیمپ میں بھیج دیا۔ 17 نومبر ان سٹوڈنٹس کو دفنانے کا دن تھا۔ طالب علم چونکہ مستقبل کے معمار ہوتے ہیں۔آنے والے دور میں ملک کی ترقی و خوشحالی ان کے ہی ہاتھ ہوتی ہے۔اس لیے انہیںآج خود کو علمی طاقت سے ایسا تیار کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ مستقبل میں بڑے سے بڑے چیلنج کا آسانی سے مقابلہ کر سکیں۔ طالب علم آج بھی اگراپنی اہمیت جاننا چاہتے ہیں تو وہ ان لوگوں سے پوچھیں جو تعلیم سے مکمل محروم رہے اور حتیٰ کہ وہ کسی سکول میں بھی نہ جا سکے۔
اور اعلیٰ معیاری تعلیم کے سلسلے میں طلباء کو یکساں مواقع فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔خصوصاً آج کے طالب علموں کو غور و فکر کی ضرورت ہے۔ اپنے اندر ایک عقابی روح پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں خود میں جذبہ ایک عزم پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ عزم کے بغیر وہ کوئی مقصد کوئی منزل حاصل نہیں کرسکتے۔ہم تعلیمی میدان میں ابھی کافی پیچھے ہیں ۔لہذا اب منصوبوں کو ایک عملی شکل دینے کا وقت ہے۔اور عمل کو کامیا بی کا دوسرا نام بھی کہا جاتا ہے۔
کیونکہ جب تک ایک انسان قدم ہی نہیں اٹھائے گا تو وہ منزل تک کیسے پہنچ پائے گا۔اور اگر ہمارے طلباء ترقی یافتہ ممالک کے کامیاب لوگوں کی ذندگی کا مطالعہ کریں تو انہیں پتہ چلے گا کہ کامیاب لوگوں کی سب سے بڑی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ عمل کے ساتھ منسلک رہتے ہیں۔وہ غلطیاں بھی کرتے ہیں لیکن حوصلہ نہیں ہارتے اور نہ ہی اپنا کام ترک کرتے ہیں۔ کیونکہ ایک سو ناکامیوں کے پیچھے ایک ہزار کامیابیاں چھپی ہوتی ہیں۔ اورکسی بھی ملک کی تعلیمی حالت اور وہاں کے طلباء کا کرداراس ملک کے مستقبل کی عکاسی کر رہا ہوتا ہے۔لیکن افسوس کہ ہمارے طالب علموں کی اکثریت تو بس موبائل فون، انٹرنیٹ، ڈراموں اور فلمی دنیا میںہی مگن ہوکر رہ گئی ہے۔
Education
انہیں یہ تو پتہ ہوتا ہے کہ اب نیا سستا کال پیکج کس کمپنی کا آیا ہے انہیں یہ بھی علم ہوتا ہے کہ آئندہ نئی فلم کب اور کس ہیرؤین کی آ رہی ہے لیکن انہیں یہ کیوں نہیں معلوم ہوتاکہ ان کا اصل تعلیمی مقصد کیا ہے وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کے اس تعلیمی اخراجات پر کسی کا خون پسینہ لگ رہا ہے۔یہاں مجھے ایک بہت خوبصورت شعر یاد آیاکہ۔شہر میں آکر پڑھنے والے بھول گئے ۔کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا۔ تعلیم کی اہمیت بارے قائداعظم نے ایک جگہ طلباء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”تعلیم اپکا پہلا فریضہ ہے۔اس پر پورا دھیان دیں۔اور اس کے ساتھ آپ دورِ حاضر کی سیاست کا مطالعہ کریں یہ دیکھیں کہ آپ کے گرد و نواح میں کیا ہو رہا ہے ہماری قوم کے لئے تعلیم ذندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔”افسوس در افسوس کہ ہمارے ملک میں تو تعلیم کا شعبہ ایک پروفیشن بن کے رہ گیا ہے۔
آج کسی تعلیمی ادارے کے پرنسپل کو ایک بزنس مین بھی کہہ دیں تو کوئی شرم کی بات نہیں۔ اس کے ساتھ ہمارے ملک میں طلباء کی ایک بدقسمتی یہ ہے کہ ایک اچھی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بھی در بدر کی ٹھوکریں ان کا مقدر بنتی ہیں۔اور بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ نوکریاں نہ ملنے کی وجہ سے اپنی تعلیمی قابلیت سے کم درجہ پر نوکریا ں کررہے ہیں۔ایک ایف اے پاس کی سیٹ پر ایم اے پاس بیٹھا ہے۔کیوں کہ انہیں ان کی تعلیمی قابلیت کے مطابق روزگار میسر ہی نہیں۔یہ تو الگ رہا بلکہ آج تو ایک ریڑھی لگانے والا شخص جو اچھی کمائی کر لیتا ہے وہ خودکو ایک پڑھے لکھے پر فوقیت یا ترجیح دے رہا ہے۔صرف اس وجہ سے کہ وہ ان پڑھ ہونے کے باوجود ایک پڑھے لکھے کی نسبت دگنا کما لیتا ہے۔
ایسا ہو بھی کیوں نہ جب حکومت نے ہی فیصلہ کر لیا ہو کہ اس ملک میں گدھا اور گھوڑا ایک برابر کرنے ہیں۔جی ہاں میرا اشارہ ڈبہ سکیم کی طرف ہے جس میں پڑھے لکھے بیروزگاروںکے ساتھ حکومت نے بڑی دلی ہمدردی کرتے ہوئے انہیں گاڑیاں عطا کرنے کا فیصلہ کیاہے۔چلیں ٹھیک ہے مان لیا کہ حکومت نے کوئی تو قدم اٹھایا۔اوراب اس سکیم میںاگر کوئی میڑک پاس شخص درخواست فارم جمع کروائے تو کچھ بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اب اسی لائن میں میٹر ک پاس کے پیچھے ایک گریجویٹ یا ایم اے پاس کھڑا ہو تو حکومت کے لئے کتنی شرم کی بات ہے۔نوکریوں کے وعدے کرنے والے حکمرانوں کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔کیونکہ تعلیمی لحاظ سے حکومت نے ایم اے پاس کا مقام ایک میڑک پاس کے برابر کر دیا۔
بہت اچھے شاباش۔اس سکیم کی سب سے پہلی ناکام پالیسی تو یہ تھی۔اب دوسری یہ کہ وہ بے روذگارتو ہو لیکن بالکل ہی غریب نہ ہو کیونکہ اس کے پاس کم از کم دو لاکھ ہونا شرط ہے۔اور اگر کسی کے پاس اتنی رقم نہیں تو اس کے لئے گاڑی کے لئے اپلائی کرنا اپنے دو ہزار روپے ضائع کرنے کے برابر ہے اور پھر تیسری بات یہ کہ وہ پڑھا لکھا نوجوان پھر بنے گا کیا صرف ایک ڈرائیور۔ دیکھیں جتنی بھی انویسٹمنٹ اس سکیم میں کی ہے اگر اس کی بجائے کوئی ایسا کارخانہ یا صنعت لگا دی جاتی جس میں ہر ایک کو کم از کم اس کی تعلیمی قابلیت کے مطابق باعزت طریقے سے روزگار میسر ہوجاتا تو یہ حکومت کا کتنا دانشمندانہ قدم ہونا تھا۔
لیکن یہ پاکستانی حکمران ہیں لہذا ان سے کوئی بھلائی کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ یا پھر کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ دوسرے ممالک کو دیکھانا چاہتے ہیں کہ دیکھو ہمارا تو ڈرائیور بھی بی اے پاس ہے۔اگر موجودہ حکومت قائداعظم کا صرف یہ فرمان ہی مدِنظر رکھ لیتی تو وہ یقینا ہر گز ایسا قدم نہ اٹھاتی۔”قومی خدمت اور احساس ِ ذمہ داری کے شعور کی نشونما ہمارا فرض ہے کہ ہم آنے والی نسلوں کو پورے طور اس قابل بنا دیں کہ وہ اقتصادی ذندگی کے مختلف شعبوں میں اس طرح حصہ لیں جو پاکستان کے لئے باعثِ عزت ہو۔”اب اگر ریاست کی طرف سے ہی طلباء کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے تو شائد انہیں اپنی قدر پہچاننے میں کنفیوژن ہو سکتی ہے۔