کرونا لاک ڈائون میں جہاں طلباء میں اعتماد کی کمی ہوئی ہے وہاں ہی استاد کے احترام کا فقدان بھی واضح نظر آ رہا ہے۔ اسلام نے استاد کو روحانی باپ کا درجہ دیا ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھایا میں اس کا غلام ہوں چاہے وہ مجھے فروخت کر دے۔.استاد کی تعریف اگر ان لفظوں میں کی جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ایک استاد لوہے کو تپا کر کندن ،پتھر کو تراش کر ہیرا بناتا ہے یہ واجب لاحترام ہیں۔ جس نے اپنے علم کو لفظوں کی مٹھاس اور تاثیر کے زریعے طلباء کے اندر روحانی غذا کا اہتمام کر کے پاکیزگی پیدا کرتا ہے تاکہ طالب علم جدید تقاضوں کے مطابق حصول علم کے ساتھ مذہبی و اخلاقی سرگرمیوں سے وابستہ رہ کے سماج میں احسن طریقے سے زندگی بسر کر سکیں۔
اشفاق احمد صاحب فرماتے ہیں کہ انہیں اٹلی کی عدالت میں جانا پڑا انہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ میں استاد ہوں وہ کہتے کہ جج سمیت کورٹ میں موجود تمام لوگ اپنی نشستوں سے کھڑے ہو گئے اس دن مجھے معلوم ہوا کہ قوموں کی عزتوں کا راز استادوں کی عزت میں ہے۔ایک انگریزی مقولہ ہے A Teacher is a Beacon that Lights the Path of a child. ( استا د وہ مینارہ نور ہے جو بچے کی راہ کو علم ہ ہدایت سے منور کر دیتا ہے)ماہر نفسیات کی تعلیمی اداروں میں اشد ضرورت ہے تاکہ کرونا لاک ڈائون میں بچوں کے اندر کی شدت اور انتہاء پسندی کی روک تھام ہو سکے۔والدین بچوں کی تربیت میں کئی ایسی عادات کو اپنا رہے ہیں جو دراصل بچوں کی شخصیت کو تباہ کرنے کا سبب بن رہی ہیں اور والدین کو اس کا علم بھی نہیں ہو رہا۔وہ چاہتے ہیں ہمارے بچے ہر وقت شدید خوش رہیں۔ ماہر نفسیات فلیپا پیری کہتی ہیں کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ کا بچہ ہر وقت خوش رہے بچپن کمہار کی چاک ہے اور بچہ اس چاک پر رکھی گیلی مٹی کی طرح ہوتا ہے ماں،باپ کا ہاتھ اس گیلی مٹی کو جیسا رخ دیتا ہے بچے کی شخصیت اس سانچے میں ڈھلتی جاتی ہے۔
والدین کے لیے اس امر پر سوچنے کی سخت ضرورت ہے کہ وہ بچوں کو بے جا لاڈ پیار سے بگاڑنے کی بجائے مناسب رویہ اختیار کرتے ہوئے انکی صحیح تربیت کریں انکی ہر جائز نا جائز ضد پوری کرنے کی بجائے مناسب رہنمائی کرتے ہوئے اچھی عادات کو پروان چڑھائیں ۔ بچوں سے پیار کی حد قائم کی جائے، حدود کا تعین ضروری ہے۔تعلیم ،تربیت کے بغیر ادھوری ہے ایسی فقط بوجھ ہے وقت کا ضیاع ہے۔ مشہور مقولہ ہے بچوں کو کھلائو سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نگاہ سے لہذا والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو سونے کا نوالہ تو ضرور کھلائیں لیکن اچھے برے میں تمیز کرنا بھی سکھائیں کیونکہ گھر سے ملی ہوئی تربیت ہی بچوں کی آنے والی زندگی کی بنیاد ہوتی ہے۔بے جا لاڈ اور آسائش بچے میں بگاڑ پیدا کرتی ہے والدین کا رعب اور مناسب سختی تربیت کا اہم حصہ ہے ہمارے پیارے آخری نبی ۖ بچوں کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتے جس سے بچوں کی دلجوئی کے ساتھ ساتھ تربیت کا سامان بھی رہتا تھا۔علم کو انسان کی تیسری آنکھ کہا جاتا ہے انسان کو اپنے مقصد حیات مقصد تخلیق، سچائی کی پہچان، حقائق کاا دراک اور معاشرے میں مہذب زندگی گزارنے کا سلیقہ علم ہی کے زریعے ہوتا ہے۔
دینی و اخلاقی تعلیم و تربیت کا نہ ہونا قوم کو زوال و پستی کی طرف لے جاتاہے۔ تربیت ایک مسلسل فکر مندی اور انتہائی توجہ اور نگہداشت کا کام ہے۔تعلیم اور تربیت دو الگ الگ چیزیں ہیں بچوںکو اسکول ، کالج ، ٹیوشن بھیج کر اس کے تربیتی تقاضے پورے نہیں کررہے بلکہ علمی تقاضے پورے کر رہے ہیں۔حضرت امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ بچے کو سخت تاکید کرنی چاہیے کہ مجلس میں تھوکنے، جماہی اور انگڑائی لینے، لوگوں کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھنے ، پائوں پر پائوں رکھنے اور ٹھوڑی کے نیچے ہتھیلی رکھ کر بیٹھنے سے منع کرنا چاہیے۔ بچے مستقبل میں قوم کا معمار ہوتے ہیںاگر انہیں صحیح تربیت دی جائے تو اس کا مطلب ہے ایک اچھے اور مضبوط معاشرے کے لیے ایک صحیح بنیاد ڈال دی گئی ہے ایک اچھا پودا ہی مستقبل میں تناور درخت بن سکتا ہے۔ ایک بادشاہ جس کی بادشاہت کا ڈنکا چہار دانگ عالم میں بجتا تھا اپنے استاد کے ساتھ سفر کے لیے نکلا ، راستے میں ندی تھی استاد محترم نے آگے ہو کر ندی پار کرنا چاہا مگر شاگرد نے کہا استاد محترم اسے پہلے میں عبور کروں گا ، استاد کے تعجب کرنے پر شاگرد نے کہا استاد محترم آپ کی عزت سر آنکھوں پر مگر ندی پار کرنے میں میرا مقصد صرف یہ تھاکہ اگر آپ نے ندی پہلے پار کی اور اس کے نتیجے میں آپ کی جان چلی گئی تو پورے عالم کا نقصان ہو گاا س لیے میں نے سوچا کہ پہلے ندی میں پارکروں تاکہ اگر میر ی جان چلی گئی تو صرف ایک شہنشاہ کی جان جائے گی ، آپ زندہ رہے تو مجھ جیسے کتنے بادشاہ بنا سکتے ہیں یہ بادشاہ سکندر اعظم اور استاد ارسطو تھے۔بچے والدین کے پاس اللہ کی امانت ہیں۔
ہزار برق گریں لاکھ آندھیاں اٹھیں وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں