دور حاضر میں کم آمدنی والے والدین کے لئے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔موجودہ دور میں جب کہ مہنگائی کا پہاڑ کے ۔ٹو پہاڑ سے بھی بلند ہو چکا ہے۔
سرکاری وغیرسرکاری چھوٹے ملازمین کی تنخواہ زیادہ سے زیادہ آٹھ دس ہزار ہے۔یوں تو غریب آدمی کے لئے آٹھ دس ہزاربھی بہت بڑی رقم ہے لیکن جب اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کے مطابق ضروریات زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس رقم کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ روز مرہ کی ضرورتوں کے لئے آٹھ دس ہزارآٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔کیونکہ پانچ سے چھ ہزار بجلی اور گیس کے بل آجاتے ہیں۔
باقی بچے پانچ سے چار ہزار۔اب جس گھر میں دو بڑھے اور دو بچے ہوں تو اس گھر کو کم ازکم ایک کلو دودھ کی ضرورت تو ضرور ہوتی ہے۔لاہور میں ایک کلو دودھ کی قیمت 60روپے ہے اس حساب سے 1800روپے ماہانہ بنتے ہیں۔اب آٹھ سے دس ہزار کمانے والے کے پاس بچیں گے باقی28سے18سوروپے ۔اتنے کم پیسوںمیں مہنے بھر کے لئے آٹا،دال،سبزی،گھی،نمک،مرچ،تیل وغیرہ وغیرہ ہی پورے نہیں ہوتے ان حالات میں جب کہ بیچارہ غریب آدمی اپنے بچوں کا پیٹ نہیں پال پاتا تو پھر اس کے بچے کو تعلیم کی سہولت کہاں سے میسر آئے گی۔
اس سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں معیاری تعلیم تو عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے ہی لیکن عام آدمی کے عام بچوں کو تعلیم سے دور رکھنے کے لئے عام تعلیم کو بھی کاروبار بنا دیا گیا ہے۔جہاں تک میں نے دیکھا اور دیکھنے کے بعد جتنا میں سمجھ پایا ہوں اس کے مطابق مجھے لگتا ہے ہم نے علم پھیلانے کے مشن کو ترک کر دیا ہے۔
یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ آج کل شعبہ تعلیم سے وابستہ ادارے اور شخصیات کا مشن صرف دولت کمانا ہے لیکن ابھی بھی دنیا میں کچھ ایسے ادارے اور کچھ ایسی شخصیات باقی ہیں جن کی نظر میں تعلیم کی اہمیت دولت سے زیادہ ہے۔قارئین آج میں آپ کے ساتھ ایسے ہی ایک ادارے کا پیغام شیئر کرنے جا رہا ہوں۔
اس ادارے کا نام ہے (ٹی سی ایف)(the citizens foundation)پیغام ہے کہ (ٹی سی ایف )اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کی ایک امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں علم و ہنر کے ساتھ ساتھ بچوں کی کردار سازی پر بھی زور دیا جاتا ہے کیونکہ ہمارا یقین ہے کہ تعلیم اور تربیت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔تعلیمی معیار کو تمام اسکولوں میں یکساں بنیادوں پر جانچنے کے لئے مرکزی امتحانات کا نظام رائج کیا گیا ہے۔چونکہ کسی بھی اسکول کی اچھی کارکردگی کا انحصار اس اسکول کے بچوں کی امتحان میں کار کردگی پر ہوتا ہے اس لئے بچوں کی اوسط فیصد نتیجہ (APR)اسکول کی کار کردگی کو جانچنے کے لئے ایک اہم پیمانہ کے طور پر رکھا گیا ہے۔APR کو پرنسپل کی کارکردگی کے ساتھ صرف اس لئے منسلک کیاگیا ہے تاکہ بچوں کی پڑھائی پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے ،ان کی کمزوریوں کی شناخت کی جائے۔
Exams
ان کو دور کرنے کے لئے بروقت اور موثر اقدامات کئے جائیں اس لئے ہم اس بات پر زیادہ زور دینا چاہتے ہیں کہ بچوں کو سال کے شروع ہی سے صاف اور شفاف امتحان دینے کی عادت ڈالی جائے اور امتحانات کے دوران ان کا بھرپور طریقے سے معائنہ کرکے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان کی کار کردگی حقیقت پر مبنی ہے تاکہ ان کی مسلسل ترقی کے لئے موثرحکمت عملی وضع کی جا سکے۔مسلسل بہتری ہماری اقدار میں سے ہے اور ہمیں اپنی اقدار کو فروغ دینا ہے۔
ٹی سی ایف کا کہنا ہے کہ معیاری تعلیم کے پانچ ستون ہیں ۔نمبر ایک ۔بنیادی مفہوم ۔نمبر دورابطے کا فن۔نمبر تین۔تخلیقی اور تنقیدی سوچ۔نمبر چار ۔خود اعتمادی ۔نمبر پانچ ۔بنیادی اقدار۔ان پانچ ستونوں اور ٹی سی ایف کا مکمل تعارف زندگی رہی تو پھر کبھی ضرور لکھوں گا لیکن آج میں قارئین کو یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں اس حوس اور لالچ کے دورمیں ٹی سی ایف فیس نہیں والدین کی توجہ مانگتا ہے۔
میرا بیٹا پچھلے دو سال سے ٹی سی ایف اسکول جھلکے سے وابستہ ہے ۔میں نے دوسال پہلے بہت سے مہنگے ترین اسکولوں کے تعلیمی معیار جانچنے کے بعد ٹی سی ایف کا انتخاب کیا تھا اور مجھے اپنے انتخاب پر فخر ہے۔
ٹی سی ایف اسکول جھلکے کی پرنسپل میڈیم فردوس اور باقی تمام ٹیچر اس قدر مخلص اور محنتی ہیں کہ میرے جیسا کم ظرف اور کم علم شخص ان کی تعریف میں کچھ نہیں کہہ سکتا صرف اتنا کہوں گا کہ جس کو شک ہو وہ اسکول کا وزٹ ضرور کرے۔
مجھے یقین ہے کہ جن بچوں کوٹی سی ایف اسکول جھلکے جیسے اساتذہ میسر ہوں اور والدین بھی بچوں کو توجہ دیں تو پھر ان بچوں کی تعلیم وتربیت میں کوئی کمی نہیں آسکتی۔ٹی سی ایف تو اپنا فرض پورا کررہا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قوم کے بچوں کی تعلیم و تربیت میں بہتری لانا ہم سب کا فرض نہیں ہے۔