تحریر: عامر خان سوہیہ مکرمی ! لفظ دہشتگرد سنتے ہی جسم میں ایک سرد سی لہر دوڑنے لگتی ہے،ذہن میں ایک خوف سا آنے لگتا ہے ، آنکھوں میں عجیب و غریب ، ڈراوئنی سی تصاویر نمایاں ہونے لگتی ہیں۔ دہشتگردی کی بنیاد 1979ء میں رکھی گئی۔اس وقت سب سویت یونین کے قبضے سے جان چھڑوانا چاہتے تھے، امریکہ نے مزاحمت کا ارادہ کیا، سرخ انقلاب کے زخم رسیدہ اس کے دست و بازو بن گئے۔ پاکستان نے بھی حصہ بننے کا فیصلہ کر لیا ۔ جنرل ضیاء الحق نے ایک ہی ایک ایسی تباہ کن پالیسی اختیار کی جس سے نہ صرف پاک فوج بلکہ پورا سماج اس کی طرف دھکیل دیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے مذہبی جماعتوں کی مدد سے اسے جہاد تصور کروایا۔
سویت یونین کا توخاتمہ ہوگیا مگر جہادی اسی جذبے سے سرشار زندہ رہے اور یہی جہاد دہشتگردی میں تبدیل ہوا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ پاکستان میں دہشتگردی عروج پر ہے۔ جس کے لیے ملک کی سالمیت اور بقا کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ پہلے سڑکوں پھر مدرسوںاور اب پورا ملک اس ناسور کی لپیٹ میں ہے۔ پاکستانی حکومت دہشتگردوں سے مذاکرات کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہی۔ بالآخر سوات آپریشن کے بعد وزیرستان آپریشن کو کہ دہشتگردوں کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، کیا گیا جو کہ اس وقت بھی جاری ہیں۔
سکیورٹی ادارے اور افواج پاکستان بہادری اور شجاعت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ دہشتگردوں کا خاتمہ کرنے کے لیے ہر طرح کے پلان کیے گئے لیکن ہمیں یہ نہیں پتہ کہ ایک تعلیم ہی ہے جس کی مدد سے ہم ان جاہلوں میں شعور اجاگر کر سکتے ہیں۔ تعلیم سے ہی ہم ان دہشتگردوں اور ان کے بچوں کو پڑھا سکتے ہیں۔ یہ دہشتگرد کھلم کھلا سکولوں میں دھماکے کرتے چلے آرہے ہیں ۔ یہ معصوم بچوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بناتے چلے آرہے ہیں۔ ہزاروں لوگوں کی شہادتیں ہوئیں ہیں۔
Terrorism is our big problem
دہشتگردی ہمارا بہت بڑا مسئلہ ہے ۔ یہ ہمارے لائف سٹائل کا حصہ بن چکا ہے۔ آپ کسی دن کا بھی اخبار دیکھ لیں تو اس میں 15,20 ہلاکتوں کی خبر ضرور ملے گی۔ کچھ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے ہوں گے تو کچھ دہشتگردی اور فرقہ واریت کا رزق بن چکے ہوں گے۔ایسی خبریں سن کر ہمار ے اندرسے زندگی سے محبت اور موت کا افسوس نکل گیا ہے۔ اب ہم ان اموات کو ڈرامے کی طرح دیکھتے ہیں۔
زندگی سے محبت اور موت پر افسوس کی اس کمی نے ہمیں اندر سے اداس کر دیا ہے۔ ہم نے مطمئن ہونا چھوڑ دیا ہے۔ اگر ہم اس ملک میں رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان تمام دہشتگردانہ سرگرمیوں کو ختم کرنا ہوگا۔ ہمیں علم کا معیار وسیع کرنا ہوگا۔ سکولوں میں بچوں کی حفاظت یقینی بنانا ہوگی۔ یہی بچے قوم کا مستقبل ہیں۔ ان پھولوں نے ہی آگے آکے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔ یہی بچے ہمارا روشن مسقتبل ہیں۔ ان بچوں کو بتانا ہوگا کہ اسلام ایک پرامن دین ہے۔ اسلام قتل و غارت اور دہشتگردی کی اجازت نہیں دیتا۔
اسلام نے لوگوں سے محبت کرنے کا درس دیا ہے۔ علم کا ہتھیار ہی ہماری اس معاملے میں مد د کر سکتا ہے۔ اسی تعلیم سے ہی ہمارے بچے اُن کے بچوں کو پڑھا سکتے ہیں۔ جب تک ملک میں ان پڑھ لوگ زندہ رہیں گے ہم اس دہشتگردی جیسی لعنت سے باہر نہیں نکل سکتے۔ اور اگر اسی طرح چلتا رہا تو ہماری بربادی کا منظر قریب ہونے کو ہے۔ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے ہر فرد وکو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ تب ہم جاکے اس جیسے ناسور سے جان چھڑا سکیں گے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے ۔۔۔۔۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا