تحریر : مولانا محمد جہان یعقوب المیہ یہ ہے کہ ہم اولاد کی تربیت کی جانب توجہ دینے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی آمادہ، اگر کسی کی اس جانب توجہ ہے بھی تو وہ اولاد کی تربیت اسلامی اصولوں کی بجائے مغربی طرز پر کر رہا ہے، جدھر دیکھیے، غیروں کی نقالی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ یہ انداز تربیت زہر قاتل ہے۔
مولانا محمد جہان یعقوب خاتم المرسلین شفیع المذنبین رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اپنی اولاد اور گھر والوں کو خیر سکھا اور باادب بنا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: اپنی اولاد کو تین چیزیں سکھا اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور ان کے اہل بیت کی محبت اور قرآن کریم کی تلاوت۔حضور اکرم ۖ کی نصیحت ہے کہ ہم اپنی اولاد کی بہتر تعلیم و تربیت کریں، یہی ان کے لیے سب سے قیمتی تحفہ و عطیہ ہے،کیوں کہ ہرتحفہ ،ہدیہ اور جائیدادوغیرہ جوہم اپنی اولادکودیں گی وہ اسی دنیاتک محدوداورایک دن ختم ہوجائے گی،لیکن صحیح تعلیم وتربیت ایسی لافانی وباقی رہنے والی چیزہے،جس کافائدہ ہماری اورہماری اولادکی زندگی ہی تک نہیں ،بلکہ موت کے بعدبھی جاری رہے گا،کیوں اولادکی تربیت سے کئی نسلوں کی تربیت وابستہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ نبی صادق ۖ نے اچھی اولادکوصدقہ جاریہ میں شمارفرمایاہے۔فقہائے کرام یہ بھی فرماتے ہیں کہ سن بلوغ کو پہنچنے سے پہلے بچہ جتنے بھی نیک اعمال کرتاہے ان کااجراس کے والدین کو ملتا ہے، خواہ وہ اس کی نیت یا دعا کرے یانہ کرے۔
اچھے زمانوں میں مسلمان کبھی اپنی اولاد کی درست اوردینی خطوط پر تربیت سے غافل نہ رہے۔کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ یہ اس قدراہم فریضہ ہے کہ قیامت میں اس کے بارے میں بازپرس ہوگی کہ بچے کی کیاتربیت کی تھی؟ اس کی ایک جھلک ذیل کے واقعے میں دیکھی جاسکتی ہے:شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب رحمة اللہ علیہ نے ”آپ بیتی” میں لکھا ہے:” جب میں چھوٹا بچہ تھا تو ماں باپ نے میرے لئے ایک چھوٹا سا خوبصورت تکیہ بنادیا تھا جیسا کہ عام طور پر بچوں کے لئے بنایا جاتا ہے مجھے اس تکیہ سے بڑی محبت تھی اور ہر وقت اسکو اپنے ساتھ رکھتا تھا ایک دن میرے والد صاحب لیٹنا چاہ رہے تھے انکو تکیہ کی ضرورت پیش آئی تو میں نے والد صاحب سے کہا کہ اباجی میرا تکیہ لے لیجئے یہ کہہ کر میں نے اپنا تکیہ انکو اس طرح پیش کیا جس طرح کہ میں نے اپنا دل نکال کر باپ کو دیدیا ہو۔ لیکن جس وقت وہ تکیہ میں نے پیش کیا اسی وقت والد صاحب نے مجھے ایک چپت رسید کی اور فرمایا: ابھی سے تو اس تکیے کو اپنا تکیہ کہتا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ تکیہ تو درحقیقت باپ کی عطا ہے لہذا اس کو اپنی طرف منسوب کرنا یا اپنا قرار دینا غلط ہے۔
حضرت شیخ الحدیث رحم اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اس وقت تو مجھے بہت برا لگا کہ میں نے تو اپنا دل نکال کر باپ کو دے دیا تھا اس کے جواب میں باپ نے ایک چپت لگادی، لیکن آج سمجھ میں آیا کہ کتنی باریک بات پر اس وقت والد صاحب نے تنبیہ فرمائی تھی اور اسکے بعد سے ذہن کا گویا رخ ہی بدل گیا”۔اس قسم کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ماں باپ کو نظررکھنی چاہیے۔ تب جاکر بچے کی تربیت صحیح ہوتی ہے اور بچہ صحیح طور پر نکھر کر سامنے آتا ہے۔
مفتی اعظم بغدادعلامہ آلوسی نے اپنی تفسیرمیں فرمایاہے کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب میں وہ شخص ہوگا،جس نے اپنی اولادکی تربیت میں کوتاہی کی۔عرب دانش مندوں کاکہناہے:صرف وہ یتیم نہیں جس کاباپ مرجائے،بلکہ وہ بھی یتیم ہے جسے دینی علم وادب سے محروم رکھاگیا۔مشہور ہے بچپن کی عادت، پچپن تک نہیں جاتی، اگر ہم نے اپنے بچوں کی درست تربیت کی تو وہ اپنی زندگی یہود و نصاری کے طریقے سے نہیں بلکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کے طریقے سے گزاریں گے۔حضرت سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ: ہم اپنے بچوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غزوات اور جنگیں اسی طرح یاد کرایا کرتے تھے جس طرح انہیں قرآن کریم کی سورتیں یاد کراتے تھے۔یہ اسی تربیت کااثرتھاکہ صحابہ کرام کی اولاداسلامی تعلیمات،جرا ت وشجاعت،ایثارووفا،امانت ودیانت اوردینی غیرت وحمیت میں اپنے آباکاعکس جمیل ثابت ہوئے۔
دورحاضر کاسب سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ ہم اس جانب توجہ دینے کے لیے تیارہیں اورنہ ہی آمادہ۔اوراگرکسی کی اس جانب توجہ ہے بھی تووہ اولادکی تربیت اسلامی اصولوں کی بجائے مغربی طرز پر کر رہا ہے۔ جدھر دیکھیے،غیروں کی نقالی کاجادوسرچڑھ کربول رہاہے۔یہ اندازتربیت زہرقاتل ہے۔کیوں کہ ہم جس تہذیب پرآج کامسلمان ریجھتاہے،خودوہ مائل بہ خودکشی ہے،ایسی شاخ نازک پربننے والے آشیانے کی پائیداری کی توقع رکھنا عبث ہے۔
ہم اپنے بچوں اورنئی نسل کی تربیت وپرورش سے غافل ہیں۔ہماری نے التفاتی نے انہیں میڈیاکے حوالے کردیاہے اوردجالی میڈیاان کی منفی ومخرب اسلام واخلاق خطوط پرپرورش میں شیطان کی طرح دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج ہماری نئی نسل اپنے اسلاف کی درخشندہ روایات اورتاب ناک ماضی سے یک سرناواقف ونابلد،بلکہ ان سے باغی وشاکی اورمغرب ویورپ کی مادرپدرآزادتہذیب کی بدترین غلامی میں مبتلاہے۔اس کی وجہ ان کوملنے والی صحبت ہے۔ایک طرف عصری تعلیمی اداروں کامغرب زدہ ماحول،اوپرسے میڈیاکے ذریعے دیاجانے والا سلو پوائزن۔ جس کے اثرات سامنے اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔
شیخ سعدی نے درست فرمایا: صحبت صالح تراصالح کند صحبت طالح ترا طالح کند تاتوانی دور شو ازیاربد یاربد بدتر بود ازماربد
یعنی انسان کو اچھی صحبت اچھا بناتی ہے اور بری صحبت برا بنا دیتی ہے،تم بری صحبت سے دوررہواس لیے کہ برادوست سانپ سے زیادہ ضرررساں ہوتا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردیدحقیقت ہے کہ جو اچھوں میں بیٹھے گا اللہ تعالی اس کواچھائی کی توفیق دیں گے ،اس کے برعکس جو بروں میں بیٹھے گا وہ خودبھی رفتہ رفتہ برا بنے گا۔نئی پودمیں کم سنی وکم فہمی کی وجہ سے چوں کہ اپنے اچھے برے کی پہچان کی صلاحیت نہیں ہوتی اس لیے ان کی زیادہ نگرانی کی ضرورت ہے۔ والدین کا فریضہ ہے کہ وہ بچے کے دوستوں پر نظر رکھیں۔ اسے بری صحبت سے اور ڈش، وی سی آر، ویڈیوگیم،انٹرنیٹ وموبائل کے منفی وبے جااستعمال وغیرہ سے بچائیں۔ وہی والدین اولاد کی صحیح تربیت کرسکتے ہیں جو اس جانب ابتدا سے توجہ دیتے اور اولاد کی نگرانی کرتے ہیں۔ آج والدین اپنی اولاد کی نافرمانی کا شکوہ تو کرتے ہیں، مگر یہ نہیں سوچتے کہ اس میں اصل قصور ان کا اپنا ہے۔ اگر وہ بچوں کی درست تربیت کرتے، انہیں شروع سے دینی تعلیمات،اخلاقی اقدار،رشتوں کے تقدس اوراپبوں بے گانوں کے حقوق سے روشناس کراتے، بری صحبت سے بچانے کا اہتمام کرتے، تو آج وہ بڑھاپے میں والدین کے لیے دردِ سر بننے کی بجائے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنتے، ان کی خدمت کرتے ، انہیں راحت پہنچاتے،ان کی نیک نامی کاذریعہ بنتے۔کیوں کہ اچھی فصل اچھے برگ وبارلاتی ہے اور جھاڑ جھنکاڑکاشت کیے جائیں تووہ ویساہی نتیجہ دیتے ہیں۔ آئیے! عزم کریں کہ ہم اپنی اولاد کودجالی میڈیاکی بھیٹ چڑھنے نہیں دیں گے اور ان کی دینی خطوط اورصحیح نہج پرصحیح تربیت کریں گے۔ اللہ تعالی توفیق عطافر مائے۔آمین