تحریر : اختر سردار چودھری افراد اور اقوام کی زندگی میں تعلیم و تربیت کو وہ بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے کہ افراد کی ساری زندگی کی عمارت اس بنیاد پر تعمیر ہوتی ہے اور اقوام اپنے تعلیمی فلسفہ کے ذریعہ ہی اپنے نصب العین، مقاصد ِ حیات، تہذیب و تمدن اور اخلاق و معاشرت کا اظہار کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے زندگی کے اس اہم پہلو پر گہرا غور و خوص کیا ہے۔ اور اپنے افکار کے ذریعہ ایسی راہ متعین کرنے کی کوشش کی ہے جو ایک زندہ اور جاندار قوم کی تخلیق کا باعث بن سکے۔ اور ”ضرب کلیم’ میں تو ”تعلیم و تربیت” کا ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی ایسے بہت سارے اشعار ملتے ہیں،جن میں صحیح تعلیم اور اس کے مقاصد کی نشاندہی کی گئی ہے۔ علامہ اقبال چاہتے تھے کہ مسلما ن ایک ایسا نظام تعلیم تشکیل دیں جس سے اسلامی عقائد کا استحکام اور اقدار کا فروغ ہو۔ اس مقصد کے لیے تمام سائنسی اور معاشرتی علوم، معاشیات، تاریخ، ادب و فلسفہ، سیاسیات و عمرانیات، نفسیات و ماحولیات وغیرہ کی اسلامی بنیادوں پر تشکیلِ نو کی جائے۔
تاکہ اسلامی نظام تعلیم کے زیراثر ملّتِ اسلامیہ کے طلبہ اپنی تحقیقی صلاحیتوں کو اس پاکیزہ عقیدہ توحید کی روشنی میں پروان چڑھائیں جس سے ان کی دنیا اللہ پاک کی نعمتوں سے معمور ہو اور آخرت میں بھی انہیں کامیابی وکامرانی حاصل ہو۔تعلیم کے بغیر امن اور ترقی کا تصور ممکن نہیں ہے لیکن عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی ،ہم جب اپنی تمام سیاسی جماعتوں ،مذہبی جماعتوں ،این جی اوز ،اور تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں نام نہاد اداروں ،تنظیموں کو دیکھتے ہیں، ان کے اعمال دیکھتے ہیں تو دل میں ایک درد اٹھتا ہے ۔درجنوں نظام تعلیم،نصاب تعلیم اس وطن عزیز میں رائج ہیں ۔ہر مکتبہ فکر خود کو اعلی سمجھتا ہے ۔اس طرح بھلا کیسے ان کے درمیان محبت کے بیج بوئے جا سکتے ہیں۔
یہ تو صرف ایک ہی نصاب تعلیم اور ایک ہی نظام تعلیم رائج کر کے ہی ممکن ہے علم کسی بھی ملک کی ترقی اور امن کا ضامن ہوتا ہے ۔ترقی ہر طرح کی اس میں شامل ہے مثلاََ مذہبی ،لسانی ،معاشی، اقتصادی، جغرافیائی اور سیاسی وغیرہ۔ جن ملکوں نے یا قوموں نے تعلیم پر خصوصی توجہ دی اور اپنی تعلیمی پالیسیوں کے تسلسل کے لئے، جی ہاں اصل چیز ہے تسلسل اور مناسب منصوبہ بندی اس کے بعد کا مرحلہ ہے سرمایہ کاری تو وہ قوم ،ملک ترقی کر جاتا ہے ۔سرمایہ کاری کی بات ہے جہاں تک تو وہ کم از کم ملک کی اجتماعی پیداوار کا چار فیصد ہونی چائیے ۔سب سے اہم بات ہے تعلیمی نصاب اور تعلیمی پالیسی میں تسلسل ہو۔
Pakistan School System
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد آج تک جتنی تعلیمی پالیسیاں بنائی گئی ہیں دنیا کے شائد ہی کسی اور ملک میں اتنے تجربے تعلیم پر کئے گئے ہوں ۔دوسری طرف ملک میں تین کروڑ بچے سکول نہیں جاتے اس کے اسباب کس سے پوشیدہ ہیں۔یعنی غربت و بے روزگاری ۔ہر سال بچوں کو نیا نصاب تھما دیا جاتا ہے۔ اکبر اِلٰہ آبادی فرماتے ہیں کہ تعلیم جو دی جاتی ہے ہمیں وہ کیا ہے فقط بازاری ہے جو عقل سکھائی جاتی ہے وہ کیا ہے، فقط سرکاری ہے پہلی بات آج تک ملک کی ضرورتوں اور اعتدال پر مبنی تعلیمی پالیسیاں بنائی ہی نہیں گئیں ۔ا ور اگر کو ئی مناسب پالیسی ترتیب بھی دی گئی تو اس پر عمل در آمد نہ ہو سکا۔ حکمران بدلے نظام بدلا ۔پالیسی بدلی ،بھلا کتابوں پر کسی بھی حکمران کو اپنا فوٹو بنوانے کی کیا ضرورت ہے ۔ ایک نیا غیر دانش مندانہ نظام کھڑا کرنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ پہلے ہی ایک نظام موجود ہے، اس میں بہتر کیوں نہیں لائی جاتی۔
ہمارے ملک میں تعلیم کے میدان میں ترقی معکوس کی وجہ یہ ہی ہے کہ اول مناسب تعلیمی پالیسی کا نہ ہونا دوم کسی بھی پالیسی یا نظام و نصاب میں تسلسل نہ ہونا،نصاب تعلیم کا ایک جیسا نہ ہونا ۔ہم اس سے واقف ہیں کہ فرقہ واریت، انتہا پسندی اور دہشت گردی، غربت، بیروزگاری خلاف جنگ میں بھی کامیابی کا انحصار صرف اور صرف تعلیم میں پنہاں ہے ۔لیکن حکمرانوں نے سبھی حکمرانوں نے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں نے پاکستانی شعبہ تعلیم میں جاری منصوبوںکو جاری رکھنے کی بجائے انہیں ایک دوسرے کے قریب لانے کی بجائے، ایک جیسا نصاب تشکیل دینے کی بجائے، اپنی سیاست کے لیے، اپنی پبلسٹی کے لیے ایک نیا نظام کھڑا کیا قوم کو مزید کنفیوز کیا۔ملک میں امن کے لیے ترقی کے لیے ہمارے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہوگا ۔اس کے لیے خالی نعرے لگانے ،اونچے اعلی ہوٹلوں میں تقریبات کرنے سے علم کی ترقی ممکن نہیں یعنی امن ممکن نہیں ملک کے ہر فرد کو ملکر تعلیم کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اکبر اِلٰہ آبادی فرماتے ہیں کہ تعلیم وہ خوب ہے جو سکھلائے ہنر اچھی ہے وہ تربیت جو روحانی ہے
اسلام جو ایک آفاقی مذہب ہے اس پہلو پر سب سے زیادہ زور دیتا ہے کہ معاشرے میں امن وسکون رہے اور علم بارے جتنا زور دین اسلام نے دیا ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے وہی بات جو ہم جانتے ہیں کہ اصل ضرورت علم پر عمل کی ہے ۔ مذہب اسلام کا خمیر ہی ” علم وامن ” سے اٹھا ہے ۔ایک مشہور قول ہے کہ اس نادان سے بچو جو اپنے آپ کو دانا سمجھتا ہے ۔ علم کا عمل کا حصول کبھی مکمل نہیں ہوتا، انسان ساری عمر سیکھتا ہی رہتا ہے، علم پر مکمل دسترس کا تصور بھی مشکل ہے۔علم کی لازوال اوربے مثال دولت انسان کے پاس جتنی زیادہ ہوتی ہے وہ اسے اپنی کم علمی ہی خیال کرتا ہے کہ علم تو ایک بہت بڑاخزانہ اور گہرا سمندر ہے، میں نے تو اس سمندر سے ایک قطرہ بھی حاصل نہیں کیا ہے۔ انسان علم حاصل کرتے جب اپنے نقطہ کمال کو پہنچتا ہے تو اس پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اس کا دامن تو ابھی خالی ہی ہے۔