شمالی وزیرستان میں پاک فوج کا ”ضرب عضب ”آپریشن شروع ہوتے ہی ہماری سیاسی قیادت کی باہمی چپقلش کا خطرناک رُخ اختیار کرنا ہر ذی شعور محب وطن شہری کے لیے تشویشناک امر ہے ۔ جب کہ ملک کے سنجیدہ طبقات کے لیے افسوسناک صورتحال یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی بھی قد آورسیاسی رہنماء ایسا نہیں جو کہ سیاسی محاذ آرائی کوختم کرانے کے لیے کوئی مصالحتی کردار ادا کر کے متحارب سیاسی قائدین کے انتقامی جذبات کو ٹھنڈا کر سکے۔ ایک طرف ہماری عسکری قیادت آپریشن ضرب عضب کی 100فیصد کامیابی کیساتھ اسکی جلد از جلد تکمیل کے لیے کوشاں ہے تو دوسری جانب سیاسی جنگ شدت اختیار کرتی جا رہی ہے جو کہ جمہوریت پسند عوام کے لئے بھی تشویش ناک امر ہے۔
تیسری جانب ہمارے آٹھ لاکھ ہم وطن بہن بھائی اپنے گھروں سے بے گھر ہونے کے مسائل سے دوچار ہیں جبکہ چوتھی جانب ہمارا ازلی دشمن بھارت اور اس کے حلیف ممالک اپنے شیطانی مقاصد کے حصول کے لیے تما متر حربے استعمال کرتے ہوئے ہمارے ملک کو داخلی انتشار و افتراق کے عذاب سے دوچار کرنے کے درپے ہیں۔
اس قسم کے خطرناک حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی قوم کو متحدو تیار کرنا ہماری حکومتوں اور سیاسی و مذہبی قیادت کی ذمہ داری ہے ۔مگر ہمارے ملک کے حکومتی ،سیاسی ،مذہبی اور عوامی قائدین درپیش گھمبیر صورتحال کا تدارک کرنے کے لیے قائدانہ کردار ادا کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں اور ہر کسی کو اپنی اپنی سیاست و قیادت کی پڑی ہوئی ہے جو کہ ہر محب وطن شہری کے لیے تکلیف دہ صورتحال ہے اور ہر پاکستانی کی یہی خواہش ہے کہ ہمارے سیاسی ومذہبی قائدین آپس میں لڑنے جھگڑنے کی بجائے پاکستان کے دشمنوں کے خلاف لڑنے والی اپنی افواج کیساتھ مثالی یک جہتی کا شاندار مظاہرہ کریں ۔اور وطن عزیز کو لاحق سنگین ترین داخلی وخارجی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے پوری قوم کو متحد ومنظم کرنے کیلئے قائدانہ کردار ادا کریں۔
ہماری سیاسی و مذہبی قیادت کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والے ہمارے بدترین دشمن پوری منصوبہ بندی سے مملکت خداداد کو نیست ونابود کرنے کی اپنی تیاریاں مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیںاور اس وقت بھارت پوری دنیا میں اسلحہ درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکاہے۔اور 2015ء تک 80 ارب ڈالر کے نئے جدید ترین اسلحہ خریداری کے معاہدے کرچکا ہے۔
بھارت اپنی زمینی فوج کی جنگی ضروریات پوری کرتے ہوئے اب اپنی فضائی اور بحری افواج پر توجہ دے رہا ہے اور بھارتی فضائیہ کے لیے 3.5ارب ڈالر کے نئے جنگی طیارے خرید رہا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں ،عسکری وسیاسی قیادت اور شہریوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ بھارت اپنے سول جوہری پروگرام کے نام پر بین الا قوامی تکنیکی اور مالی اعانت حاصل کر کے میسور میں واقع یورنیم افزودہ کرنے کے پلانٹ میں دوگنا اضافہ کر کے تھر مونیو کلئیر ہتھیاروںکی تیاری کے قابل ہو چکا ہے اور ہائیڈروجن بم بنانے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے جس سے بھارت کے عزائم کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔
بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” اپنی اتحادی غیر ملکی ایجنسیوںسی آئی اے ،موساد اور راما کے اشتراک سے پورے پاکستان میں اپنا شیطانی نیٹ ورک پھیلا چکی ہے جسکی آئی ایس آئی اور دوسری دفاعی ایجنسیاں مکمل ثبوت کیساتھ نشاندہی بھی کر چکی ہیں ۔پاکستان کے سارے دشمن ہمارے ملک کی مسلح افواج اور آئی ایس آئی کو اپنے عزائم کی تکمیل کے راستہ میں اصل رکاوٹ سمجھتے ہیں اور وُہ پاکستان کی انتہائی منظم اور عسکری لحاظ سے بے مثال فوجی قوت سے خوفزدہ ہیں۔ اس لیے وُہ مسلسل کوشاں رہتے ہیں کہ پاکستان کی افواج اور عوام کے درمیان غلط فہمیاں پھیلا کر فاصلے پیدا کیے جائیں اور پاکستان کے دفاع کو کمزور کرنے کے لیے افواج پاکستان کو مسلسل دبائو میں رکھا جائے۔
ہماری بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر دشمن ممالک کی میڈیا وار سے متاثر ہو کر یہ پراپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے ملک کے سالانہ بجٹ کا70/80فیصد فوج پر خرچ ہوتا ہے جس کی وجہ سے عوام کی فلاح وبہبود اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے مطلوبہ فنڈز دستیاب نہیں ہوتے ۔یہ پراپیگنڈہ اس قدر سفید جھوٹ اور حقائق کے برعکس بڑامغالطہ ہے جو عام لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے بڑی مہارت کیساتھ پھیلایا جاتا ہے ۔حالانکہ فوج کو سالانہ بجٹ میں سے صرف 18فیصد حصہ ملتا ہے اور ہر سال اس میں ہونے والا 10فیصد اضافہ بھی افراط زر کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے دفاعی ادارے ہمہ وقت مالی مشکلات سے دوچار رہتے ہیں اور اپنے آپ کو سنبھالے رکھنے(Sustain )کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
سال 2001-02 کے بجٹ سے 2013-14 کے بجٹ اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ پاکستان کے دفاعی اخراجات میں سال بہ سال کمی آتی جارہی ہے۔ 2001-02 کے سالانہ بجٹ میں دفاعی رقوم مجموعی جی ڈی پی کا4.7 فیصد تھیں جو 2013-14 میں کم ہو کر صرف 2.27 فیصد رہ گئی ہیں جبکہ بھارت، امریکہ، برطانیہ ،سعودی عرب ،شام ،ایران حتیٰ کہ ترکمانستان میں دفاعی اخراجات کی شرح اس سے کہیں زیادہ ہے ۔پاک فوج دنیا کی چھٹی بڑی عسکری قوت ہے مگر پاکستان اپنی افواج پر دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت سب سے کم خرچ کرتا ہے۔
America
امریکہ میں ایک فوجی کے لیے سالانہ چار لاکھ ڈالر اور بھارت میں 25 ہزار ڈالر خرچ ہوتے ہیں جبکہ پاکستان 10 ہزار روپے فی فوجی خرچ کر سکتا ہے ۔بھارت کا دفاعی بجٹ پاکستان سے سات گنا زیادہ ہوتا ہے جس میں ہر سال اضافہ ہوتا چلاجارہا ہے۔ اس کے مقابلے میں ہمارا دفاعی بجٹ اس اعتبار سے منجمد ہوتا جا رہا ہے کہ اس میں ہونے والا سالانہ اضافہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور افراط زر کی نذر ہو جاتا ہے۔ جبکہ گزشتہ سالوں کے دوران ہماری افواج نے اپنے سالانہ بجٹ کا خطیر حصہ فاٹا میں بڑی بڑی سڑکیں تعمیر کرنے ،بلوچستان میں تعلیمی ادارے اور ہسپتال قائم کرنے ،صحرائے تھر میں انسانی ضروریات پوری کرنے اور دوسری ناگہانی آفات سیلاب وغیرہ کے دوران فلاحی و رفاعی منصوبوں پر لگا دیا۔
اس لحاظ سے پاک فوج صحیح معنوں میں ایک قومی فوج ہے جو چاروں صوبوں کو سماجی اور تعلیمی اعتبار سے یکساں سطح پر لانے کے لیے ناقابل فراموش کردار سر انجام دے رہی ہے۔ اس قدر ایثار وقربانی کے لافانی جذبوں سے لیس بلند حوصلہ افواج کے بارے میں کسی بھی قسم کا منفی اور گمراہ کن پراپیگنڈہ صریحاً احسان فراموشی اور ملک دشمنی ہے ۔ان حالات میں ملک کے محب وطن دانشوروں اور قلمکاروں پر لازم ہے کہ وُہ اپنے پاک وطن کی بقاء و سلامتی کو لاحق داخلی وخارجی خطرات کے مقابلے کے لیے دشمنان پاکستان سے برسر پیکار مسلح افواج کی حمایت میں نہ صرف آواز بلند کریں بلکہ اپنے ملک کے حکمرانوں کو بھی مشورہ دیں کہ وُہ اپنے ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے اپنی افواج کی مطلوبہ ضروریات پوری کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ وسائل فراہم کریں۔ درپیش خطرات کا تقاضا ہے۔
محب وطن میڈیا ملک میں برھتی ہوئی سیاسی تلخیوں اور محاذ آرائی کو ختم کرنے کے لیے کردار ادا کرے اور بچگانہ حرکتیں کرنے والے سیاسی قائدین کو قیادت کے آداب اور وقار کو ملحوظ خاطر رکھنے کا درس دے ۔ہمارا پاک وطن اپنی تاریخ کے انتہائی حساس ترین مسائل کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے مگر ہمارے محترم قائدین اپنی اپنی ڈفلی بجا رہے ہیں جو کہ دل روئے ،قلم روئے ،بیاں روئے کے مصداق پریشان کن صورتحال ہے ۔اگربڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی کی وجہ سے آپریشن” ضرب عضب “کے دوران ملک میں خدانخواستہ سیاسی عدم استحکام پیدا ہو گیا۔
تو اس سے ہماری قوم منتشراور تقسیم ہو سکتی ہے اور ملک میں جاری داخلی سلامتی کا بحران ہمارے خدشات سے بھی کہیں زیادہ سنگین اور خوف ناک ہوسکتا ہے۔اس لیے ہماری اپنے ملک کے تمام سیاسی ،مذہبی ،سماجی اور عوامی قائدین سے التماس ہے کہ وُہ ارض پاک کے مقدس ذرات سے بلند ہونے والی المدد،المدد کی صدائوں میں پنہاں درد کو سمجھتے ہوئے صرف اور صرف پاکستانی بن کر سوچیں اور پاکستان کے تحفظ و استحکام کے لیے باہمی مشاورت سے صحیح فیصلے کرکے قوم کی قیادت کے جملہ تقاضے پورے کریں۔جو کہ آپ سب کا ملی فریضہ اورپاک سرزمین کی پکار بھی ہے۔