اسلام آباد (عتیق الرحمن) تعلیمی اداروں کو تعلیم و تربیت کی بجائے تجارت کی منڈی بنادیا گیا ہے۔ حکومتی و پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں اسلامیات کی تدریس کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔تعلیمی اداروں میں ماہرین اسلامیات کی تقرری میں لیت و لعل سے کام لیا جاتاہے۔ طلبہ کی تعمیر سیرت اور اخلاق کا انتظام ناپید ہے۔
ان خیالات کا اظہار بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ایم فل ریسرچ سکالر اور معروف کالم نگار عتیق الرحمن نے بیداری فکر فورم اسلام آباد میں ”تعلیمی اداروں میں اسلامیات کی تدریس ”کے موضوع پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کیا ۔تقریب کی صدارت معروف ماہر امور خارجہ محمد اکرم ذکی سر پرست اعلیٰ بیداری فکر فورم کررہے تھے جبکہ پروگرام کی نگرانی راجہ جاوید علی بھٹی سیکریٹری جنرل کررہے تھے۔عتیق الرحمن نے مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ حکومتی و پرائیویٹ وبیرونی تعلیمی اداروں میں اسلامیات کی تدریس کا سر سے انتظام ہے ہی نہیں۔
سائنسی مضامین کے اساتذہ کا تقرر مکمل قابلیت اور معیار کو چک کیاجاتاہے اور پھر ان کی خدمت معاوضہ کی صورت میں بھی بہتر طور پر کی جاتی ہے مگر افسوس ہے کہ اسلامیات کی تدریس اور اس کا امتحان متعدد تعلیمی اداروں میں شامل نصاب ہے ہی نہیں جیسے کہ پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کے منتظمین صرف سائنسی مضامین کا ہی امتحان لیتے ہیں جس کے سبب وہ سکول جو اس ادارے کے زیرانتظام ہیں وہ اپنی اسلامی و ایمانی اور قومی ذمہ داری کو نبھانے سے اجتناب کرتے ہیں ان کا مقصود صرف پیسہ ہوتاہے اور وہ سائنسی مضامین میں اعلیٰ درجہ حاصل کرنے والے طلبہ کو ہی اداکیا جاتاہے۔
انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال اور علامہ اسد اور مولانا ابولحسن علی ندوی کا مسلمانوں کے لئے تصور تعلیم یہ تھا کہ مسلمانوں کو مغربی نظام و نصاب تعلیم سے وہ کچھ حاصل کرنا چاہیے جس کی حاجت و ضرورت عصر حاضر میں لازم و مستلزم ہو ہاں اس امر کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مغرب کی تہذیب و ثقافت کو اختیار جکرنے سے اجتناب کیا جائے کیوں کہ وہ مادیت و نفسانیت کا درس دیتی ہے اور رب کریم کی رضاو منشاء سے دورکردیتی ہے۔اس کے ساتھ ہی ان حضرات نے پاکستان و مسلم ممالک کو یہ دعوت دی ہے کہ وہ اپنے نظام و نصاب کا ازسرنو جائزہ لیں کہ جہاں پر اصلاح و تجدید کی حاجت ہو اس کو مکمل کریں اور یہ پیغام دینی و عصری تمام تعلیمی اداروں کو دیا گیا ہے۔
دینی ادارے عصری ضرورتوں کا احساس رکھتے ہوئے اپنے نصاب میں ترمیم کریں کہ مسلم عالم صرف مسجد و مدرسہ میں ہی اپنے فرائض انجام نہ دے بلکہ سماجی زندگی میں مشغول و مصروف انسانوں کی رہبری کی سیاسی و سماجی ،معاشی و معاشرتی قیادت کی باگ دور سنبھالنے کے ساتھ ان کو دعوت فکر و اصلاح بھی دے سکے ۔اسی طرح عصری اداروں پر بھی لازمی ہے کہ وہ سائنسی وتجرباتی علوم کے ساتھ ساتھ اسلامی و نظریاتی علوم کا بھی اہتمام کریں کہ جس کے نتیجہ میں سعاد ت دنیوی کے ساتھ سعادت آخرت بھی متحقق ہوجائے اور سماج و معاشرہ سے بیماریوں اور فساد و انتشار کا خاتمہ ہوسکے ۔محمد اکرم ذکی نے صدارتی خطاب میں کہا کہ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ ان کی وحدت کو تار تار کرنے کے لئے مغرب مختلف حبے اور ہتھکنڈے استعمال کرتاہے جس کے لئے وہ ہمارے ہی لوگوں کو استعمال کرتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ آج کل مغرب نے ایک نیا ایجنڈا یہ دیاہے کہ پاکستان میں دینی مدارس کو بند کیا جائے کیوں کہ یہ مدارس دہشت گردی و انتہاپسندی کو فروغ دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ امر انتہائی خطرناک ہوگا اگر مدارس کو سیل کرنے کا عمل شروع کیا گیا مگر اس امر میں شک و شبہ نہیں کہ یہودی انتہاپسند ،عیسائی انتہاپسندوں کی طرح مسلمانوں میں بھی یہ عنصر ضرور موجود ہے مگر لازم یہ ہے کہ حکومت مدارس کی کڑی نگرانی کرے اور ان کے کوائف جمع کرے اور اگر اس دوران کوئی ایسامدرسہ نظر آتاہے جو انتہاپسندی کی دعوت دے رہا ہو تو اس کو بلاکسی توقف کی بند کردیا جائے۔حکومت پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ مدارس کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے علماء اور طلبہ کو معاشرے کے ساتھ وابستہ رکھنے کے لئے ان کی مالی و اخلاقی مدد کرے اور ان کے تعلیم و تعلم کے اخراجات میں معاونت کرے ۔ڈاکٹر ساجد خاکوانی نے کہا کہ مدارس کے خلاف جو فضا عالمی طور پر بنائی جارہی ہے کہ انہیں بند کیا جائے یہ کسی صورت ممکن نہیں ہے کیوں کہ مدارس نے استعمار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کا مقابلہ کیا ہے اور اسی امر سے مغرب خوف زدہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اہل مدارس کو چاہیے کہ وہ اپنے تعلیمی و تدریسی نصاب میں وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تبدیلی کریں تاکہ فاضلان مدارس معاشرہ کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ احسن انداز سے ڈال سکیں۔تقریب میں سلطانہ فائونڈیشن کے چئیرمین ڈاکٹر نعیم غنی ،سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر غلام حسین ،حکیم قیصر اکرام،مصطفی حسین صدیقی اور طلبہ نے شرکت کی۔