تحریر: عتیق الرحمن وحی الہی کا آغاز اور انسان کی ہدایت کیلئے رہنماء اصولوں کو بیان کرنے کا آغاز اللہ تعالیٰ نے غار حرامیں مقیم نبی رحمتۖ سے قرآن حکیم کی سورئہ علق کی پہلی پانچ آیات سے کیا ۔جن میں تعلیم و تعلم کی اہمیت کو شاندار الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کے نام سے پڑھیں جس نے پیدا کیا ،پیدا کیا انسان کو گوشت کے لوتھڑے سے ،پڑھئے عزت والے رب کے نام سے، تعلیم سکھلائی قلم کے ذریعہ ،انسان کو اس چیز کا علم سکھایا جس سے ناواقف تھا۔یعنی ان آیات کریمہ میں واضح کردیا گیا ہے کہ ملت اسلامیہ کی نشونما اور اس کی بقا ہمیشہ کیلئے علم کے ساتھ وابستہ و منسلک کردی ہے کہ جو علم بغیر قلم کے ذریعہ اور بغیر کتاب کے پڑھنے سے حاصل نہیں ہوسکتا۔قرآن حکیم میں علم کی تحصیل کی ترغیب سے متعلق درجنوں بار سے زیادہ علم کے مشتقات کا ذکر وارد ہواہے اور صرف یہی نہیں بلکہ اہل علم کی صفات متمیزہ کا بھی ذکر کردیا گیاہے۔ جبکہ نبی اکرمۖ نے علم کی اہمیت و تحصیل سے متعلق درجنوں احادیث میں حکم صادر فرمایا کہ علم حاصل کرو مہد سے لحد تک، علم حاصل کرو خواہ چین بھی جانا پڑے ،علم حاصل کرنا فرض ہے مردو عورت دونوں پر۔یادرہنا چاہئے کہ اسلام نے صرف علم کی تحصیل کا حکم ہی نہیں دیا بلکہ اس کی عملی ترغیب و اہمیت دینے کیلئے بتلایا دیا کہ علم حاصل کرنا افضل ہے ساری رات عبادت کرنے سے، یہی وجہ ہے کہ خود نبی اکرمۖ مسجد نبوی کے حلقوں میں سے علم کے حلقہ میں تشریف رکھتے تھے۔
مگر بد قسمتی سے جب سے مسلمانوں نے علم میں تفریق و تقسیم کردی ہے اور اس کے تحصیل میں دینی و دنیاوی کے نام پر الگ الگ مراکز قائم کرلئے ہیں کہ باہم متحارب ہیں اور علم تنزلی و پستی ہی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان بتدریج روبہ زوال ہیں اور ذلت و رسوائی سے دوچار ہیں اور اگر ملت اسلامیہ کے ارباب حل و عقد اور حکمران و معاشرہ دنیا پر اپنے شاندار ماضی کا احیاء چاہتے ہیں تو انہیں اپنے درمیان علم کو اس قدر فروغ دینا ہوگا کہ ان میں سے ابن سینا، رازی، و کندی و فارابی ،ابن الھیثم ،امام غزالی، و آئمہ اربعہ،جیسے علماء تیار کرنے ہوں گے کہ وہ عقل و منطق اور فہم و فراست اور تدبر میں اس قدر ید علیارکھتے تھے کہوقت کہ حکمران و خلفاء ان کی مشاورت سے کبھی بھی تساہل و تغافل سے کام نہ لیتے بلکہ ہر اہم فیصلہ مسلمانوں کے جید علماء و شیوخ کی مشاورت کے بعد ہی طے کئے جاتے تھے۔اب مسلمانوں کو اپنے مسائل کا ادراک ہونے لگا ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمان ملکوں میں علم و معرفت کی جانب رجوع کیا جارہاہے۔حکومتی وزار یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی کی کنجی ہے ۔ حکومت ملک میں تعلیمی انقلاب برپا کرنے کیلئے تاریخی اقدامات کر ہی ہے کیونکہ پڑھی لکھی اور باصلاحیت نوجوان نسل ہی ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
تعلیم ایک ایسا مقدس پیشہ و شعبہ ہے کہ جس کے متعلق نبی اکرمۖ نے فرمایا کہ تم میں سے بہترین وہ ہے جو تعلیم قرآن حاصل کرے اور اس کو دوسروں تک پہنچائے۔اسی طرح نبی اکرمۖ نے فرمایا ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد تین اعمال کا ثواب اسے برابر پہنچتارہتاہے ،اول صدقہ جاریہ کے انسان کے مرجانے کے بعد بھی لوگ اس سے فائدہ حاصل کرتے رہیں اور دوئم،نیک اولاد جو والدین کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد بھی ان کیلئے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں سوئم اور اہم ترین عمل یہ ہے کہ انسان تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس کی تعلیم وتدریس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لے ۔یہ طلباء جب تک نسل در نسل عمل منتقل کرتے رہیں گے تو استاذ اول کو اس کا برابر اجر ملتارہے گا۔اسی لئے لازمی و ضروری ہے کہ علم کے ساتھ اپنے کو منسلک و ابستہ کرلیا جائے خواہ وہ علم حاصل کرنے کی صورت میں ہو یا علم حاصل کرنے والوں کی مدد کے سلسلہ میں یا پھر علم کو منتقل کرنے کے سلسلہ کو اختیار کیا جائے ماعدا لوگوں کی زندگی لاحاصل و لایعنی ہے۔اور یہاں امر ملحوظ خاطر رہنا چاہئے کہ علماء کرام اور علم سے وابستہ افراد کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ لمحہ بلمحہ خالق بشریت کی جانب سے مقرر کردہ فرشتوں کی زیر نظر ہیں کہ ان کا ہر آن و ہر گھڑی اور ہر قول و عمل کا مشاہدہ و محاسبہ کیا جاتاہے اسی لئے قرآن نے کہا ہے کہ ”بیشک علماء ہی اللہ سے ڈرتے ہیں”یعنی ہر عمل و فعل یا بات سے پہلے وہ استحضار رکھتے ہیں کہ انہیں اس کا فائدہ ہوگا یا نقصان اگر اس دقیق سوچ سے تغافل برتتے ہیں ایسی صورت میں زوال و پستی مقدر ٹھہریگی۔مرور زمانے کے تھپیڑوں نے تعلیم کے شعبوں میں مختلف حصوں میں تقسیم کردیا ہے جس کے نتیجہ میں والدین اور طلبہ و معاشرہ نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوچکے ہیں کہ وہ کس ادارے اور کونسی تعلیم حاصل کریں چونکہ تعلیم کو اغیار کی سازشوں سے متضاد بنا دیا گیا ہے۔
جیساکہ ملک کے طول و عرض میں پھیلے تعلیمی ادارہ جات کے بھرمارنے عوام الناس کیلئے مشکلات بڑھانا شروع کر دی’ہر محلہ ‘گلی اور مکان میں کھلے تعلیم کے نام پر تجارت سے ہر ذی شعور پریشان ‘کون سا نصاب ‘کس اتھارٹی کے سامنے کون جواب دہ’اکثریتی تعلیمی ادارہ جات میں تدریس بچوں کی نفسیات کے برعکس’سیکورٹی کا نظام انتہائی ناقص’صحت و صفائی بھی ماند پڑنے لگی۔ پاکستان میں تاحال مستقبل کے تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیمی پالیسی عملی شکل اختیار نہ کر سکی۔ہر گلی کوچہ میں کھلنے والے تعلیمی ادارہ جات میں کون سا نصاب پڑھایا جا رہا ہے سٹاف کا کیا معیار ہے؟تعلیمی ادار ہ کی عمارت ‘سیکورٹی’صحت’کھیل کود کا نظام ‘اور نفسیاتی طور نونہالوں کی تعلیم اور تربیت سب سوالیہ نشان بنتا جارہا ہے۔
دوست ویلفیئر فاونڈیشن نے گذشتہ ٣ سالہ رپورٹ میں انکشاف کیا کہ طبقاتی نظام تعلیم بڑا مسلہ تھا لیکن اب دیگر مسائل بارے حکومت پاکستان کو اولین درجہ پر توجہ کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کی ہر خاص و عام تعلیمی نظام کی اپنی علیحٰدہ ایک شناخت اور طریقہ طرز ہے جو نونہالوں کے مستقبل کو کسی حد تک محفوظ و روشناس کیے جانے کے لیے ناکافی ہے۔ تعلیمی ادارہ جات کے نصاب اور عمارتیں’ سیکورٹی’ کھیل کھود ‘اور دیگر معاملات بارے حکومتی احکامات اور بجا آوری وقت کی عین ضرورت ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سنجیدہ بنیادوں پر اقدامات کرتے ہوئے تعلیم و تعلم کے شعبہ کی سرپرستی کرتے ہوئے اس میں یگانگت و مساوات یقینی بنائے۔
Atiq ur Rehman
تحریر: عتیق الرحمن ناظم وحدانی نظام تعلیم فورم پاکستان(اسلام آباد)