تحریر: عتیق الرحمن سویت یونین کے اتحاد کے ٹوٹ جانے کے بعد سے برصغیر خصوصا پاکستان و افغانستان کی صورتحال بالحاظ امن و امان دگر گوں رہی ہے۔ سویت یونین کی تقسیم کے بعد مغرب اور یہود و ہنود کو اپنا مدمقابل بر آنے والا طبقہ یا خطہ یہی پاکستان و افغانستان محسوس ہوئے جس کے نتیجہ میں انہوں نے مختلف حیلوں اور بہانوں سے اس خطہ مقدس میں اپنے ناپاک عزائم کو فروغ دینے کے لئے تگ و دو کا آغاز کیا۔ جس کے نتیجہ میں سویت یونین کے خاتمے کی مد میں عسکری و مالی مدد، اس کے بعد ان ملکوں میں تعلیم و صحت اور رفاہی سرگرمیوں کے نام پر اپنے جاسوس و مخبر متعین کئے۔
مغربی و یورپی خصوصا امریکی و اسرائیلی ایجنڈا کی تکمیل کو بآسانی نتیجہ تک پہنچانے کے لئے ہر کس و ناکس اور ہر حیلے و حربے کو استعمال کرتے ہوئے اس خطے کی عوام کو باہم دست و گریبان کردیاجیسے صوبائیت و علاقائیت،سیاست و مذہبیت ،مسلکیت و فرقہ واریت خطرناک حد تک شہہ دلوائی کہ آج اس ملک پاک میں عدم برداشت اور اضطراب و بے چینی کی ایک ناختم ہونے والی کیفیت شروع ہوچکی ہے اگر اسے ناپاک اور خطرناک مرض بشکل کینسر کہنا بے معنی نہیں ہوگا۔
Education
دوہزار ایک کے بعد کھلے طور پر بلوچستان ،فاٹا اور ملک بھر میں فرقہ واریت و دہشت گردیت اور انتقام و قانون کو ہاتھ میں لینے کی روش پنپ اٹھی جس کو کنٹرول کرنے کے لئے متعدد سیکیورٹی فورسز و انٹیلی جنس ایجنسیوں نے خفیہ و کھلے آپریشن کئے مگر عجب اور باعث حیرت و پریشان امر یہ ہے کہ آج تک دہشت گردوں اور انتقام و بدلہ اور قانون کو ہاتھ میں لینے والے افراد و گروہ کو ختم نہیں کیا جا سکا۔
اب کچھ عرصہ سے ظلم و سربریت کی مثال اس طرح رقم کی جارہی ہے کہ تعلیمی اداروں کو ہدف و نشانہ بنایا جارہاہے۔ کھلی بات ہے کہ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اور تعلیم و تعلم کے فریضہ و پیشہ سے منسلک افراد کا کسی بھی قسم کی منافرت و مخاصمت جیسی سرگرمیوں سے وابستگی ہوتی ہے۔
ان کا فرض و ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ تعلیم و تحقیق کو اپنا ہتھیار بنائیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ دین و دنیا میں تفریق و تبعید کی سوچ رکھنے والی قومیں اس امر سے خوف زدہ ہیں کہ مسلمان دین پر سختی سے عمل پیرا ہوتے ہوئے دنیا کی ترقی و سربلندی کے لئے مصروف عمل کا جذبہ لے کر تعلیم حاصل کرتے ہیں جس کا بدیہی نتیجہ مغرب و یورپ اور خواہشات کے پچاریوں اپنی لنکا ڈوبتی نظر آتی ہے ،جس کے سبب وہ تعلیمی اداروں میں قتل و خون کا بازار گرم کرکے (جس کا آغاز دوہزار نو سے اسلامی یونیورسٹی میں حملے سے ہوا اور پھرگذشتہ سال آرمی پبلک سکول اور اب باچاخان یونیورسٹی کو نشانہ بنایاگیا)نوجوانوں کو دین و و دنیا میں سے کسی ایک شعبہ کو اختیار کرنے کی بلواسطہ ترغیب دی جارہی ہے۔
یہ راگ الاپا جاتاہے کہ یہ دھماکے و حملے مذہبی ودینی سوچ رکھنے والے افراد کرتے ہیں اور اس کے سبب عصری اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کے قلب و جگر میں مذہب و دین سے بعد پیدا ہوجاتاہے ۔اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ تعلیمی اداروں پر حملہ کرنے والا کوئی بھی جنسیت و قومیت رکھتاہو اور کسی انتقامی یا بدلے یا تخربی و فسادی جذبہ سے اس میں مصروف عمل ہی کیوں نہ ہو و ہ درحقیقت مغرب و یہود و نصاریٰ اور مجوسیو ں اور ہندوئوں کیپس پردہ مدد کررہے ہیں اور ان کا یہ عمل ان کے لئے یوم حساب میں ذلت و ناکامی کے ساتھ ہمیشہ کا دردناک عذاب تیار ہے۔
Bacha Khan University Attack
ہم حکومت پاکستان اور خفیہ اداروں اور سیکیورٹی اداروں سے التماس کرتے ہیں کہ وہ آرمی پبلک سکول پر حملہ آوروں کی طرح باچاخان یونیورسٹی پر حملہ کرنے والوں اور ان کی مدد کرنے والوں کو اعلانیہ اور عبرتناک سزادیں اور اس امر کا ضرور اہتمام کریں تاکہ آئندہ کوئی ایسی ناپاک جسارت نہ کرسکے۔
تعلیمی اداروں کے سربراہان سے درخواست ہے کہ وہ اپنے اداروں میں طلبہ و اساتذہ اورانتظامیہ کے افراد کی سیاسی و مذہبی اور لسانی و قومی عصبیتوں سے مربوط سرگرمیوں پر پابندی عائد کریں۔طلبہ و اساتذہ سے مطالبہ کرتاہوں کہ ہم دشمنان ِ ملت اور دشمنانِ اسلام کی سازشوں سے ہرلمحہ چوکس و باخبر رہنے کی کوشش کریں اور اپنے گرد و نواح میں رہنے اور بسنے والے افراد پر کڑی نظر رکھیں تاکہ وہ ان یہود وہنود اور اسلام و ملک پاک کے دشمنوں کی سازشیں ناکام و نامراد ہوں۔
اس کے ساتھ ہم پر ضروری و لازم ہے کہ ہم تعلیم و تعلم کے میدان میں محنت و لگن اور جستجوکے ساتھ ساتھ تدبر و تفکر کا ایسا استعمال کریں ہم اپنے ملک اور اپنے دین کو عالم دنیا پر علمی مجال میں قیادت دلوائیں،چونکہ ملک پاکستان اچھے سیاستدان،اچھے علمائ،باصلاحیت فوجی قیادت،دیانت دار و محب وطن صحافیوں کے ساتھ ساتھ اچھے ڈاکٹر ،اچھے انجینئیر ،ماہر معاشیات و ماہر سائنسدانوں کا حاجت مند ہے۔
اس عمل کو پایہ تکمیل تک صرف طلبہ ہی پہنچاسکتے ہیں اسی لئے قرآن حکیم اور سنت نبویۖ میں علم کی اہمیت و فضیلت اور اس کی تحصیل کی ترغیب کے ساتھ ہی یہ بھی ذکرکردیاگیاہے کہ اہل علم کسی انسان ،کسی دشمن،کسی دہشت گرد ،کسی انتہاپسند کی سازشوں سے خوف زدہ نہیں ہوتے بلکہ ان کے قلب و جگر میں اگر خوف ہوتاہے تو وہ صرف ایک باری تعالیٰ کا ہوتا ہے۔
ATIQ UR REHMAN
تحریر:عتیق الرحمن (اسلام آباد) atiqurrehman001@gmail.com 03135265167