کسی بھی ملک و قوم کی ترقی میں اس کی نئی نسل کا اہم حصہ شامل ہوتاہے۔ ان نوجوانوں کی تعلیمی وتربیتی رہنمائی کا خیال رکھنا معاشرے کے تمام ذمہ دار طبقے پر لازم ہے۔والدین ،اساتذہ،حکومت اور تعلیمی اداروں کی اہمیت و ذمہ داری سب سے بڑھ کر ہے۔والدین گھر میں اچھی تربیت کا اہتمام کریں اور اساتذہ اس بچے کی تعلیم پر مکمل توجہ دیں کہ کہیں اس میں علمی کمی نہ رہ جائے۔حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے بہتر مواقع فراہم کرے ۔تعلیمی اداروں پر لازم ہے کہ وہ صرف روپیہ پیسہ جوڑنے کی بجائے اپنے پاس آنے والے طلبہ کی تعلیم و ترنیت کے ساتھ ان کو بہتر و مناسب ماحول فراہم کریں ۔جہاں وہ آنے والے ایام میں اپنی ذمہ داریوں سے آگہی حاصل کرنے کے ساتھ ہی ان کی انجام دہی کی بھی بہتر تربیت حاصل کرسکے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ ملک پاکستان کے تعلیمی ادارے نت نئی اقسام میں منقسم ہوچکے ہیں ۔یہاں دینی تعلیمی اداروں کی تفریق ہے تو کہیں عصری تعلیم پھر عصری تعلیمی اداروں میں بھی اردومیڈیم و انگلش میڈیم کی تفریق پائی جاتی ہے اور اسی پر بس نہیں ہے بلکہ اس میں بھی اول لیول اور اے لیول کی تقسیم بھی موجود ہے ۔اس وجہ سے ہمارے ملک کی تعلیم ثنویت کا شکار ہوچکی ہے اور اسی وجہ سے ملک پاکستان کی عوام کو مخلص و دیانت دار قیادت ستاسٹھ برسوں میں بھی نہ مل سکی ۔یہیں پر ایک ایک ظلم یہ بھی ہورہاہے کہ تعلیم کے انتقال میں قابلیت و صلاحیت یا اس کی افادیت و کوالٹی کودیکھنے کی بجائے صرف اور صرف پیسہ و مادیت کو اہمیت دی جاتی ہے
اسی لیے سبھی تعلیمی ادارے طلبہ سے تو بھرے ہوئے ہیں مگر ان میں سے نکلنے والی کھیپ میں یہ صلاحیت موجود ہی نہیں کہ وہ اسلامی یا انسانی معاشرے کی قیات کر سکیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں اخلاقیات ،معاملہ فہمی،انسانی ہم دردی،اسلامی اخوت و محبت ناپید ہوچکی ہے۔
اسی کے ساتھ ظلم یہ بھی ہے کہ بہت سے تعلیمی ادارے صرف پیسہ بٹورنے کے لیے قائم ہوچکے ہیں ۔بس طلبہ سے بھاری بھر فیسیں وصول کرتے ہیں مگر ان کو علم و عمل اور اخلاقیات کی تربیت دینے سے کوئی دل چسپی نہیں رکھتے۔اسی طرح کی صورت حال سے دوچار عالم اسلام کی واحد و مایہ نازجس کو قائم ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ یہاں سے مسلم قوم کی عملی زندگی میں رہنمائی کرنے والے افراد و نوجوان تیار کیے جائیں گے ۔اس سلسلے میں عرب ممالک کے امراء و سلاطین نے بھاری بھر زکواة و صدقات میں سے مالی مدد کی اور پاکستان نے زمین مختص کی ۔مگر مرور زمانہ کے ساتھ یہ تعلیمی ادارہ دوسرے مادیت کے پرستار تعلیمی اداروں سے بھی کئی درجہ زیادہ پیش قدمی کر چکا ہے۔
Education
اس میں میرٹ و صلاحیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے طلبہ کو دھڑادھڑ داخلے دیے جاتے ہیں۔مگر داخلہ دینے کے بعد ان پر ظلم و جبر کے پہاڑ ڈھائے جاتے ہیں ان کو رہائش فراہم نہیں کی جاتی جس کے سبب طلبہ دربدر دکھے کھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔اس کثرت کے ساتھ نئے شعبے قائم کیے جاتے ہیں پھر ان میں آنے والے طلبہ کو تعلیم دینے کے لیے کلاس روم میسر نہیں ہوتے کہیں اساتذہ اپنے دفتروں میں کلاسیں لیتے ہیں تو کہیں طلبہ اپنا قیمتی وقت سیر سپاٹوں اور گپوں اور فضول قسم کی سرگرمیوں میں وقت برباد کرتے ہیں وہ ایسا کیوں کرتے ہیں کیوں کہ کلاس روم نہ ہونے کی بدولت وہ منتظر ہوتے ہیں کہ کوئی کمرہ فارغ ہو تو ہم کلاس لیں۔
اسی طرح اسلامی یونیورسٹی میں اساتذہ کی مصلحت و منفعت کو ہمیشہ مدنظر رکھا جاتاہے وہ جیسا بھی ہو اگر اس کو یونیورسٹی میں سفارش و اقرباء پروری کی بدولت استاذ کی سیٹ مل گئی ہے تو اب وہ سیاہ و سفید کا مالک اور مکمل خود مختیار ہے جیسا چاہے طالب علم کے ساتھ سلوک اختیار کرے۔حال ہی میں اس امر کا مشاہدہ کا اتفاق ہوا کہ طلبہ کے اصرار پر کہ ہم اب اعلیٰ تعلیم کے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں اس لیے ہمیں پرانے و ماہر استاذ دیا جائے تو ان طلبہ کو اول تو دوماہ تک چھوٹی تسلیاں دی جاتی رہیں اور جب استاذ دینے پر راضی بھی ہوئے تو اپنی مرضی کی شرائط سامنے رکھ کر طلبہ کو بلیک میل کرنا شروع کردیا گیا۔
جب طلبہ نے اصرار کیا کہ چلیں ہم آپ کے بتائے ہوئے اساتذہ میں سے فلاں کو اختیار کرتے ہیں تو پھر لیت ولعل کا سہارالینے کے ساتھ طلبہ کو کہا گیا کہ ہوگا وہی جو میں چاہتاہوں تم سب طلبہ متفق ہوبھی جائوکسی استاذ پر میں نہیں دوں گا۔ کیوں کہ استاذ کونسا دینا ہے اور کونسا نہیں یہ ہماری مرضی سے ہوگا۔ پھر جب انہی صاحب کی بات سے طلبہ نے ایک استاذ کا انتخاب کیا تو منتظم صاحب نے طلبہ کو ہدف تنقید بنا لیا کہ تم سیاست کرتے ہوئے اور ہمارے لیے مسائل و مشکلات پیداکرتے ہو۔اس امر کا اظہار اصلاح کی نیت سے نہیں بلکہ تضحیک و تحقیر کی نیت سے سرراہ کرنے لگے۔
کسی بھی تعلیمی ادارے میں اگر منتظمین و اساتذہ اور طلبہ کے درمیان اس طرح کی چپقلیشیں پروان چڑھیں گی تو کیا خاک نئی نسل کو بہتر قیادت میسر آئے گی ۔من پسند افراد کو نوازنا ،کاسہ لیسی کو فروغ دینا،آمریت و عصبیت و نفرت کو ہوادینے سے کس طرح صالح و مصلح قیادت میسر آئے گی۔باتیں تو بہت ہیں بس اسی ایک دل کی دنیا کو اذیت میں مبتلا کرنے والے حادثے کو نقل کردیا ہے۔
اس تحریر کے ذریعے سے اسلامی یونیورسٹی کی انتظامیہ کو یہ واضح پیغام دیاجاتاہے کہ آپ کے پاس بیس ہزار سے زائد طلبہ وطالبات ملت اسلامیہ کی امانت ہیں خدار ا ان کی سیرت و کردار سازی میں غفلت نہ برتیں بصورت دیگر عنداللہ مجرم ہو گے ان طلابہ وطالبات کی زندگیوں اورآئندہ نسل کی قیادت و رہنمائوں کو بانجھ کرنے کی سزا سے لازماً دوچار ہوں گے۔ حکومت پاکستان اور ہائر ایجوکیشن کمیشن سے بھی مطالبہ کرتاہوں کہ تعلیمی اداروں میں سیاسی و مذہبی،قومی لسانی ،مسلکی و فرقہ واریت پر مبنی عصبیتیں فروغ دینے والوں کی بیخ کنی کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کریں ورنہ تا قیامت مسلم امہ کو نیک و صالح قیادت نہیں ملے گی ۔اس امر کا آغاز اسلام کے نام پر بننے والے ادرے سے کیوں نہ کیا جائے؟
ATIQ UR REHMAN BALOCHI
تحریر:عتیق الرحمن 03135265617 atiqurrehman001@gmail.com