تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی کسی بھی ملک کے حالات کو سمجھنا چاہیں تو دیکھنا چاہیے کہ وہاں نظم و نسق کی صورتحال کیا ہے، خواتین جو معاشرہ کا کمزوروں ترین حصہ ہیں وہ کن حالات سے دوچار ہیں، افراد و گروہ کن بنیادوں پر تقسیم ہیں،ا خلاقی اعتبار سے معاشرہ کس معیار پر ہے، وغیرہ۔ صورتحال کا جائزہ اہل علم کے لیے اگر باعث سکون ہوتو اس بہتر کوئی اور بات نہیں ہو سکتی لیکن اگر حالات تشویشناک ہوں تو پھر منظم و منصوبہ بند مثبت تبدیلوں کے لیے سرگرم عمل ہونا چاہیے۔لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ فکری ونظریاتی اور تہذیبی و تمدنی اختلافات کی بنیادیں ایک ہی صورتحال کو کبھی مثبت تو کبھی منفی بنا کر سامنے لاتی ہیں۔اس کے باوجود خالق حقیقی نے انسان کی فطرت میں اچھائی اور برائی وضاحت خوب اچھی طرح کردی ہے۔
فی الوقت جس خبر سے ہم بات کا آغاز کیا چاہتے ہیں وہ سپریم کورٹ آف انڈیاکا وہ فیصلہ ہے جس میں ریاست مہاراشٹرا کے دارالحکومت ممبئی میں شراب والی رقص گاہوں پر عائد پابندی کو ہٹایا جانا ہے۔سنہ دو ہزار پانچ میں ریاستی حکومت نے ان رقص گاہوں پر یہ کہہ کر پابندی عائد کی تھی کہ یہ رقص گاہیں جرائم اور جسم فروشی کے اڈے ہیں ساتھ ہی نوجوانوں میں بے راہ روی کا سبب ۔لیکن چونکہ یہ رقص گاہیں باضابطہ مال و دولت کے حصول کا ذریعہ بنی ہوئیں ہیں لہذا متاثرہ مالکان و رقاصائوں نے پابندی کی شدید مذمت کی۔
آپ جانتے ہیں کہ ان ڈانس بارز میں رقاصائیں گانوں پر رقص کرتی ہیں تو وہیں شائقین بے تحاشہ دولت لٹاتے ہیں۔پابندی لگنے سے پہلے لگ بھگ چودہ سو رقص گاہوں سے ایک لاکھ عورتوں کا “روزگار “وابستہ تھا۔ریاستی حکومت کی جانب سے اس پابندی کو اپریل دو ہزار چھ میں ممبئی میں ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا تھا تاہم ریاستی حکومت کی جانب سے عدالتِ عظمیٰ میں اپیل کی گئی۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ فیصلہ آنے تک یہ رقص گاہیں بند رہیں گی۔لیکن پندرہ اکتوبر سنہ دوہزار پندرہ سپریم کورٹ آف انڈیا نے ریاست مہاراشٹر میں ڈانس بارز یعنی رقص گاہوں پر لگی پابندی کو ختم کر دیا اور اس طرح ممبئی میں بند پڑے بہت سے ڈانس بارز دوبارہ کھل گئے۔آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ مہاراشٹر کی سابقہ کانگریس اور این سی پی کی حکومت نے رقص گاہوں پر پابندی عائد کر کے انہیں بند کروا یا تھا۔دوسری جانب رقص گاہوں کے مالکان نے عدالت کے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ممبئی ڈانس بار ایسوسی ایشن کے ترجمان منجیت سنگھ نے بی بی سی سے بات چیت میں کہا ‘ہم اسے ایک بڑی کامیابی سمجھتے ہیں۔ ممبئی سے نائٹ لائف ایک طریقے سے ختم ہو گئی تھی اور جو خواتین رقاصائیں تھیں وہ گھر چلانے کے لیے جسم فروشی کرنے پر مجبور ہوگئیں تھیں۔ ہماری “تجارت “بھی اب اچھی طرح سے چل سکے گی لہذا ہم اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
وہیں حقیقت یہ ہے کہ شراب و منشیات کے اس کھلے بازار میں عصمتیں نیلام ہوتی ہیں،اخلاقی زوال کی بدترین مثالیں قائم کی جاتی ہیں ،نتیجہ میں نہ صرف ملک کا مستقبل ،نوجوان طبقہ ہلاکت میں مبتلا ہوتا ہے بلکہ خاندان اور معاشرہ بھی بتاہیوں کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔دوسری جانب منشیات اور اس کو استعمال کرنے والے افراد کے ذریعہ نہ صرف معاشی مسائل پیدا ہوتے ہیں بلکہ صحت عامہ کے بھی بے شمار مسائل یہیں سے پنپتے ہیں۔ساتھ ہی جرائم کے فروغ اور اضافہ میں بھی متاثرہ افراد پیش پیش رہتے ہیں۔ہندوستان میں اس وقت ریاست پنجاب کے شہریوں کی بڑی تعداد اس لعنت میں مبتلا ہے۔75%فیصد نوجوان منشیات کے شکار ہیںوہیں عام شہری بھی بلاتخصیص مرد و خواتین ملوث ہیں۔ ممبئی ،حیدر آباد اور دیگر بڑے شہر اس کی لپیٹ میں ہیں۔ہندوستان کے مسلمانوں کی 18%آبادی اگر الگ کر دی جائے تو 75%فیصد گھروں میں شراب عام طور پر استعمال کی جاتی ہے ساتھ ہی اسے کوئی برائی بھی نہیں سمجھا جاتا۔ریاستی و مرکزی حکومتیں منشیات میں مبتلا افراد کو چھٹکارا دلانے کے لیے بے شمار rehab centres چلانے میں مصروف ہے۔
Drug
ملک کی راجدھانی دہلی میں ہی اس طرح کے سینٹر س کی تعداد تقریباً500ہے وہیں دیگر این جی اوز و ادارے بھی اس کام میں مصروف عمل ہیں۔اس کے باوجود سچائی یہ بھی ہے کہ حکومت شراب کے ٹھیکوں کو لائسنس دیتی ہے،سستے داموں میں منشیات کھلے عام ہر مقام پر دستیاب ہے اور معاملہ مضحکہ خیز اس وقت بن جاتا ہے جبکہ ملک کا سپریم کورٹ شراب و رقص گاہوںکو چلانے کی اجازت دیتا ہے۔ان حالات میں ملک کے ہر شہری،بااختیار افراداور حکومت و عدلیہ کو سوچنا چاہیے کہ شراب و منشیات اور اس کے نتیجہ میں ملک و معاشرہ جس ددرجہ خسران میں مبتلا ہے،حالات کے تناظر میں بڑی ہی نہیں متعلقہ ہر چھوٹی برائی کو بھی ختم نہیں کیا جانا چاہیے۔جہاں معاملہ یہ ہو کہ ملک کا مستقبل ،نوجوان طبقہ شراب و منشیات میں حد درجہ مبتلا ہو،اخلاقی زوال کے بے شمار واقعات ہر صبح سننے کو ملتے ہوں،معاشرتی بگاڑ اور خاندانی نظام تباہ و برباد ہو رہا ہو،ملک کی دولت کا ایک بڑا حصہ مسائل کے حل میں صرف کیا جا رہا ہو۔اس کے باوجود اگر حالات قابو سے باہر ہوں اور اضافہ ہی ہوا جا رہا ہو،توپھر کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ ان حالات میں ہمارا طرز عمل،فکر و نظریہ اور قوانین لازماً تبدیل ہونے چاہیں؟اور نہ صرف قوانین میں بتدیلی لائی جائے بلکہ عمل در آمد کے ٹھوس اقدامات بھی کیے جائیں۔اس کے برخلاف واقعہ یہ ہے کہ نہ صرف مغربی تہذیب بلکہ ہندوستانی تہذیب جسے باالفاظ دیگر ہندو تہذیب بھی کہا جاسکتا ہے،میں اس تعلق سے سنجیدگی نہیں پائی جاتی۔اور چونکہ ان کے بڑے اور ان کے چھوٹے سب ہی اس برائی میں ملوث ہیںلہذا عوام جو عموماً تقلید پسند ہوتی ہے اُس میں بھی اِس تعلق سے کراہیت نہیں پائی جاتی۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کی ایک بڑی آبادی مسلمانوں پر منحصر ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو تعلیمات ِخداوندی کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو سنوانے کی سعی و جہد کرتے ہیں۔لیکن وہاں بھی وہ افراد و خاندان جو اسلامی تعلمیات سے ناآشنا ہیںیا ہندوتہذیب کا جن پر غلبہ ہے شراب و منشیات سے گریز نہیں کر تے۔نتیجہ میں وہ برائیاں یہاں گرچہ اس درجہ میں نہیں اس کے باوجود قابل قدر تعداد اس جانب متاثرہوتی نظر آرہی ہے۔خصوصاً مسلمانوں کا نوجوان طبقہ اور ان میں بھی وہ افراد جن کے گھروں میں اسلامی تعلمیات کے چرچے نہیں ہوتے۔اس پس منظر میں مسلمانوں کو کسی خام خیالی میں نہیں رہنا چاہیے کہ وہ یا ان کی نوجوان نسل اِس برائی سے طویل مدت میں اپنی شناخت برقرار رکھ سکے گی۔کیونکہ وبائی بیماریاں جب پھیلتی ہیں تو پھر چہار جانب اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں الہ یہ کہ اس سے بچنے کی مخصوص اور منظم کوششیں پورے شعور کے ساتھ کی جائیں۔شعور کی ابتدا وہ قرآنی ہدایات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:پوچھتے ہیں :شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے ؟ کہو ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے۔
گرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں ، مگر ان کا گناہ ان کے فا ئدے سے بہت زیادہ ہے(البقرہ:٢١٩)۔ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، امیّد ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی۔ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے۔ پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہوگے؟ اللہ اور اس کے رسول ۖ کی بات مانو اور باز آجائو، لیکن اگر تم نے حکم عدولی کی تو جان لو کہ ہمارے رسول ۖ پر بس صاف صاف حکم پہنچا دینے کی ذمّہ داری تھی( المائدہ:٩٠-٩١)۔وہیں اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ لاتی ہو،اس چیز کی کم مقدار بھی حرام ہے(مسند احمد)۔احکامات خداوندی کی روشنی میں فکر و عمل کی تصحیح ہمارے اختیار میں ہے۔
عمل کے نتیجہ میں ہم اور آپ نہ صرف اللہ کی رضا و خوشنودی اور کامیابی و کامرانی سے ہمکنا ر ہوں گے بلکہ عمل ہی کے نتیجہ میں اسلامی تعلیمات کی تبلیغ وتشہیر بھی خود بہ خود ہو جائے گی۔نیز ملک و ملت اور معاشرہ کی صورتحال میں بھی مثبت تبدیلی سامنے آسکتی ہے۔لہذا لازم ہے کہ اسلامی تعلیمات کو بھر پور انداز میں نہ صرف عام شہریوں تک پہنچایا جائے بلکہ پالیسی ساز اداروں میں اس تعلق سے گفتگو ہونی چاہیے۔کوششوں کے نتیجہ میں ممکن ہے اہل علم اور باشعور انسان برائیوں سے نجات پائیں اور ملک کے بے شمار وسائل وصلاحیتیںاور مال و دولت کا صحیح استعمال کیا جا سکے۔ساتھ ہی ایسے تمام افراد کاہر ممکن تعاون کیا جاناچاہیے جو ملک و ملت کو اس لعنت سے نجات دلانے کے لیے سرگرم عمل ہیں اور جن کے مقاصد و جذبات اخلاص پر مبنی ہیں!