مصر (اصل میڈیا ڈیسک) قریب دس برس قبل مصر میں انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے لیے مظاہرے شروع ہوئے تھے۔ مظاہرے کچل دیے گئے اور اپوزیشن کی حقوق کے حصول کی تحریک السیسی دورِ صدارت میں کسی نتیجے پر پہنچ نہ پائی۔
مصری دارالحکومت قاہرہ کے مرکزی التحریر اسکوائر میں پچیس جنوری سن 2011 کو ایک ایسی تحریک نے جنم لیا تھا، جس کا اول مقصد کئی برسوں سے منصب صدارت پر براجمان ڈکٹیٹر حسنی مبارک کو اقتدار سے فارغ کرنا تھا اور دوسرا کامیابی کی صورت میں آزادی اظہار کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے وقار کی انتہائی مخدوش صورت حال کو بہتر بنانا تھا۔
مصر میں اٹھنے والی اس عوامی تحریک کو اسی دور میں تیونس، شام، اردن اور بحرین میں شروع ہونے والی تحریکوں کا تسلسل قرار دیا گیا تھا۔ عرب اسپرنگ کے آثار اب بھی ان خطوں میں محسوس کیے جاتے ہیں۔
صرف تیونس میں ان مظاہروں کے باعث جمہوریت کے قیام کا مقصد حاصل کر لیا گیا لیکن اس ملک میں معاشی و معاشرتی استحکام آنا ابھی باقی ہے۔ مصر کی تحریک کسی بڑے خواب کی تکمیل کے بغیر ایک اور آمرانہ حکومت کے قیام کی صورت میں ناکامی پر ہمکنار ہوئی اور پھر اسے زوردار انداز میں کچل دیا گیا۔
ایک دہائی قبل شروع ہونے والی تحریک کا بنیادی مقصد مظاہروں کے ذریعے حاصل ہو گیا اور تین دہائیوں سے زائد عرصے سے برسراقتدار آمر حسنی مبارک کو عوامی دباؤکے باعث اقتدار چھوڑنا پڑا تھا۔ اپوزیشن کی دائیں بازو اور قدامت پسند نظریات کی حامل مرکزی سیاسی جماعت اخوان المسلمون جو کہ ان مظاہروں میں پیش پیش تھی، کا اگلا مقصد بظاہر جمہوریت نوازی تھا اور دوسری جانب اس کے حامی خلافت کے قیام کی بات کرتے پھرتے تھے۔
الیکشن بھی ہو گئے اور مصر کی اہم سیاسی و مذہبی تحریک اخوان المسلمون کے امریکی تعلیم یافتہ انجینیئر محمد مرسی سن 2012 میں ملک کے پہلے جمہوری طور پر منتخب صدر منتخب ہو گئے لیکن ایک اور عوامی تحریک اٹھنے کی وجہ سے فوج نے ان کی حکومت کو بھی ختم کر دیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ایک سال تک منصبِ صدارت پر فائز رہنے والے محمد مرسی کی بہت ساری مشکلات تھیں اور ان میں سب سے بڑی اخوان المسلمون کے سخت عقائد تھے۔ مختصر مدت میں ان کی حکومت نے مرتب کردہ نئے دستور پر ریفرنڈم کا فیصلہ کیا۔ اس مجوزہ دستور کو مرسی کے مخالفین میں شامل لبرل، مغرب نواز سیاسی جماعتوں اور دوسرے حلقوں نے ایک سخت قوانین والی ‘اسلامی حکومت کی تشکیل‘ سے تعبیر کیا۔’مصر اسلام پسندوں کے خوابوں کا قبرستان‘
دستور کے مخالفین کے مطابق اس کے نفاذ سے زندگی کے ہر شعبے کو بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک اہم متنازعہ شِق یہ تھی کہ کسی بھی شخص کو بغیرکسی مقدمے کے تیس ایام کے لیے جیل میں بند کر دیا جائے گا۔ اس مجوزہ دستور کی مخالفت میں ہزاروں افراد سڑکوں پر آ گئے۔
مصر میں مرسی کے حامیوں کو اعتدال پسند مسلمانوں، مسیحیوں اور لبرلز کی زوردار مزاحمت کا سامنا تھا۔ تین جولائی سن 2013 کو شدید ہنگاموں کے بعد فوج نے محمد مرسی کو اقتدار سے ہٹا کر گھر پر نظر بند کر دیا۔ مرسی کی یہ نظر بندی پھر جیل میں تبدیل کر دی گئی۔ انہیں کئی مقدموں کا سامنا تھا۔ سن 2019 میں مصر کے پانچویں اور جمہوری طور پر منتخب واحد صدر ایک ملکی عدالت کے ‘گلاس کٹہرے‘ میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ سن 2015 میں ایک ملکی عدالت نے سابق معزول صدر کو موت کی سزا بھی سنائی تھی، جس پر عمل نہیں ہو سکا۔
معزول صدر مرسی کے مقرر کردہ فوج کے سربراہ عبد الفتاح السیسی نے حکومت سنبھال کر ہنگامی حالت کا نفاذ کر دیا۔ مرسی کے حامیوں نے فوجی حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریک شروع کر دی اور اس کو شدید حکومتی جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا اختتام مسجد رابعہ العدویہ کے دھرنے پر ہوا جہاں بیٹھے ہوئے افراد پر سکیورٹی فورسز نے گولیاں برسا دی تھیں۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں کے مطابق اس کارروائی میں ایک ہزار کے قریب افراد ہلاک اور بے شمار زخمی ہوئے تھے۔ حکومتی کمیشن نے ہلاکتوں کی تعداد چھ سو بتائی تھی۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس کریک ڈاؤن کی پرزور الفاظ میں مذمت کی۔ اقوام متحدہ کی خصوصی خاتون رپورٹیئر برائے ماورائے قانون ہلاکتیں اگنیس کالمارد نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا کہ مصر میں یہ بہار بہت کم مدت کے لیے آئی اور فوج کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت نے ‘عرب بہار‘ سے یہ سبق سیکھا کہ آزادی کی کمزور سوچ کو بھی پنپنے کا موقع نہیں ملنا چاہیے۔
السیسی حکومت کے اس وقت کے وزیر خارجہ سامع شُکری نے دھرنے کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کارروائیوں پر بین الاقوامی تنقید کو ملکی معاملات میں مداخلت قرار دے کر مسترد کر دیا۔
مرسی حکومت کے خاتمے کے بعد اقتدار فوج کے سربراہ عبد الفتاح السیسی کے ہاتھوں میں تھا اور وہ منصب صدارت سنبھال چکے تھے۔ سن 2013 میں ان کے وزیر اعظم حازم عبدالعزیز الببلاوی نے کار بم دھماکے میں ہونے والی ہلاکتوں کی ذمہ داری اخوان المسلمون پر عائد کرتے ہوئے اکیس دسمبر سن 2013 کو اسے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے کر ہر قسم کے اثاثے ضبط کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔
اس سے قبل اگست سن 2013 میں مسجد رابعہ العدویہ کا دھرنا کچلنے کے بعد اخوان کے حامیوں، کارکنوں اور مرکزی قیادت کی گرفتاریاں شروع کر دی تھیں۔ گرفتار افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ عدالتوں کی جانب سے بے شمار گرفتار افراد کو مختلف المیعاد سزائیں سنا دی گئیں اور سینکڑوں افراد کو سزائے موت دینے کے احکامات بھی جاری کیے جا چکے ہیں۔
مصری ذرائع ابلاغ کو سن 2013 سے شدید پابندیوں کا سامنا ہے۔ سینکڑوں ویب سائٹس کو ملک دشمن قرار دے کر بند کیا جا چکا ہے۔ صحافیوں کی تنظیم جرنلسٹس وِد آؤٹ بارڈرز کے مطابق اس وقت بھی مصری جیلوں میں کم از کم اٹھائیس صحافیوں کو قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا ہے۔ کئی میڈیا آؤٹ لیٹس کو فوج کے حامی افراد یا اِداروں نے خرید کر ان کی آزاد حیثیت کو کچل دیا ہے۔’ہر پانچ میں سے ایک عرب‘ نوجوان ہجرت کرنا چاہتا ہے، رپورٹ
سن 2013 سے جاری ہنگامی حالت کو سن 2020 میں دوبارہ نافذ کر دیا گیا۔ گرفتاریوں کے سلسلے میں خواتین کو بھی کوئی استثنیٰ نہیں اور سوشل میڈیا پر سرگرم درجنوں خاتون کارکنوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ مصر کی نیشنل کونسل برائے انسانی حقوق کے سربراہ مُخلص قُطب کا کہنا ہے کہ ان کے ملک میں قانون کی حکمرانی میں ابھی وقت لگے گا۔