مصر (اصل میڈیا ڈیسک) مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے کہا ہے کہ ان کے ملک کو یہ حق حاصل ہو گیا ہے کہ وہ ہمسایہ ملک لیبیا میں مداخلت کرے۔ انہوں نے ملکی فوج سے کہا ہے کہ وہ ضرورت پڑنے پر لیبیا میں سرحد پار کارروائی کے لیے تیار ہو جائے۔
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے ہفتے کے دن کہا کہ اگر ضروری ہوا تو ملکی فوج ہمسایہ ملک لیبیا میں فوجی کارروائی کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ لیبیا کے حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ اب قاہرہ حکومت کو یہ حق حاصل ہو گیا ہے کہ وہ اس ہمسایہ ریاست میں مداخلت کرے۔ انہوں نے یہ بیان ایک ایسے وقت پر دیا ہے جب اہم علاقائی طاقت ترکی کی افواج لیبیا میں مداخلت کر چکی ہیں۔
خانہ جنگی کے شکار ملک لیبیا میں ترکی کی مداخلت کی وجہ سے خطے میں مزید کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔ اس صورتحال میں مصری صدر السیسی نے طرابلس میں بین الاقوامی حمایت یافتہ ملکی حکومت کی حامی فورسز کو خبردار کیا ہے کہ وہ لیبیا کے مشرقی علاقوں میں موجودہ کنٹرول لائن سے دور رہیں۔
ان علاقوں پر جنگی سردار خلیفہ حفتر کا کنٹرول ہے۔ یاد رہے کہ لیبیا میں دو متوازی حکومتیں قائم ہیں۔ بڑے قومی اتحاد (جی این او) کی حکومت کو بین الاقوامی حمایت حاصل ہے جبکہ خلیفہ حفتر کی قیادت میں لیبیا کی نیشنل آرمی (ایل این اے) کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا تاہم اسے روس، متحدہ عرب امارات اور مصر کی حمایت حاصل ہے۔
جی این اے کو حاصل ترک حمایت کی وجہ سے خلیفہ حفتر کی طرابلس پر گزشتہ چودہ ماہ سے جاری چڑھائی کامیاب نہیں ہو سکی۔ مصری صدر نے لیبیا کی سرحد سے متصل فوجی یونٹوں کا دورہ کرنے کے بعد کہا، ”لیبیا میں مصر کی براہ راست مداخلت کے لیے عالمی سطح پر قانونی جواز مل چکا ہے۔‘‘
السیسی نے کہا کہ ‘دہشت گرد ملیشیا گروہوں اور کرائے کے قاتلوں‘ سے ‘براہ راست دھمکیاں‘ ملنے کے بعد مصر کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان گروپوں کو غیر ملکی حمایت حاصل ہے۔ ان کا اشارہ جی این اے کے حامی ملیشیا گروپوں کی طرف تھا، جنہیں ترکی کی حمایت حاصل ہے۔
مصری صدر کے مطابق لیبیا میں مداخلت کا مطلب ہو گا کہ اس ملک سے متصل مصر کی بارہ سو کلو میٹر طویل مغربی سرحد کو محفوظ بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے لیبیا میں استحکام اور امن کی کوششیں کی جائیں اور سیزفائر کو ممکن بنایا جائے۔ السیسی نے ملکی ایئر فورس کے پائلٹوں اور خصوصی فورسز سے خطاب میں یہ بھی کہا کہ ‘کسی بھی مشن کے لیے تیار رہا جائے، سرحدوں کے اندر بھی اور ضرورت پڑنے پر سرحد کے پار بھی‘۔
دوسری طرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے قاہرہ حکومت کو تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ مصر کو اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کا حق حاصل ہے۔ تاہم ابھی تک جی این اے یا ترکی کی طرف سے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔
ہفتے کے دن ہی مصری صدر نے کہا تھا کہ ان کی کوشش رہی تھی کہ لیبیا میں قیام امن کی خاطر مکالمت کا راستہ اختیار کیا جائے لیکن اب صورتحال تبدیل ہو چکی ہے، ”اگر کوئی سوچتا ہے کہ وہ سرت الجفرہ فرنٹ لائن کو عبور کر لے گا، تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ ہماری لیے یہ ایک سرخ لکیر ہے‘‘۔
مصری صدر نے کہا کہ قاہرہ حکومت لیبیا کے قبائل کو اسلحہ اور تربیت بھی فراہم کر سکتی ہے تاکہ وہ ‘دہشت گردوں‘ سے نبرد آزما ہو سکیں۔ ساتھ ہی انہوں نے ساتھ اس بات پر بھی زور دیا کہ فریقین کو تشدد اور فوجی طاقت کا راستہ ترک کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر لوٹ آنا چاہیے۔