تحریر : محمد آصف اقبال، نئی دہلی یہ جو کہا گیا ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اور اگر جسم کے کسی حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم درد محسوس کرتا ہے۔ درحقیقت یہ ایک سچائی ہے جسے موجودہ دور میں با خوبی دیکھا جا رہا ہے۔ گرچہ آج پورا عالم اسلام دشوار ترین دور سے گزر رہا ہے اس کے باوجود بصیرت افروز نگاہیں یہ بھی دیکھ رہی ہیں کہ جلد ہی اسلام، اپنی اخلاقی برتی، عدل و انصاف، معیشت، معاشرت اور تمدن کے اعلیٰ پیمانی لیے، پوری آب و تاب کے ساتھ، انسانیت کی خیر و فلاح کا پیغام لیے منظر عام پر آنے والا ہے۔ممکن ہے اہل علم اسی پس منظر میں کہیں اسلامی نظام حیات کے قیام میں سرگرم ہوں تو کہیں اسلامی نظام حیات و طرز حکومت کے خلاف منظم کوششیں ہوتی نظر آئیں۔ کیونکہ اہل علم تودونوں ہی ہیں۔
وہ بھی جو مثبت فکر و عمل کے ساتھ ،امن و امان کے قیام میں سرگرم ہیں تو وہ بھی جو منفی پروپگنڈا لیے اسلام کی شبیہ بگاڑنے کی منظم سعی و جہد کرتے نظر آرہے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ منفی پروپگنڈا،معتدل مزاج افراد کو متاثر کرتا ہے یا قیام امن میں مصروف افراد و گروہ اپنی جانب ان معتدل مزاج افراد کو متوجہ کر پاتاہیں؟۔گرچہ پروپگنڈے میں بے شمار وسائل بھی کارفرما ہیں اس کے باوجود مثبت رویے اور اخلاق حسنہ سے مزین افراد،زماں و مکاں کی قیود سے باہر فی زمانہ کامیابی سے ہمکنا ر ہوتے آئے ہیں۔
Muslim Brotherhood
وہیں یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ منظم،منصوبہ بنداور تسلسل کے ساتھ انجام دی جانے والی سرگرمیاں،جن میں اعلیٰ اخلاق ومکمل اخلاص بھی موجود ہو، کسی قیمت ناکام نہیں ہوتیں۔یہ الگ بات ہے کہ ہمارا محدود ذہن اور کمزور آنکھیںنتائج کونہ محسوس کریں اور نہ دیکھ پائیں۔اس کے باوجود ہر معمولی کوشش نتیجے کے اعتبار سے اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔دوسری طرف جن اثرات کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے خواہش مند ہیں،ان کو بقول شخصے ،اپنی اس ایک روزہ یا کچھ زائد زندگی میں دیکھ پائیں یا نہ دیکھ پائیں۔اس کے باوجودہمیں یقین ِکامل ہونا چاہیے کہ ہماری ہر مثبت سعی و جہد اپنے بہترین نتائج اخذ کرتی جارہی ہے۔پھر اس یقین کامل کے ساتھ جو عمل بھی اخلاق ِحسنہ و اخلاصِ اعلیٰ کے نمونے پیش کرتے ہوئے انجام دیا جائے گااُس کے نتیجہ میں نہ صرف فرد بلکہ وہ اجتماعیت بھی بارآور ہوگی جسے ایسے افراد میسر ہوں۔شاید یہی معاملہ مصر میں اخوان المسلمون اور اس کے کارکنا ن کے ساتھ ہے۔کہ جس کے عملی مظاہر ے وہ فی زمانہ پیش کرتے آئے ہیں۔آئیے اس تحریک سے متعارف ہوں۔
عرب دنیا میں امام حسن البنا(1949-1906ئ)نے اپنی 22سالہ عمر میں سال1928ء میں مصر میں اخوان المسلمون کی بنیاد رکھی۔یہ تحریک بہت جلد مصر کے گوشے گوشے میں پہنچ گئی۔اخوان نے زندگی کے ہرشعبے میں اپنا کام منظم کیا۔مصری حکمرانوں کو اخوان کی مقبولیت سے خطرہ محسوس ہوا تو انہوں نے 1949ء میں امام حسن البنا کو شہید کر دیا۔بعد میں شاہ فاروق کا تختہ الٹا گیا اور ملک میں فوجی حکومت آئی تو اخوان پر ایک نئے ابتلا کا دور شروع ہوگیا۔جنر ل محمد نجیب کو بے دخل کرکے ،کرنل ناصر برسراقتدار آیااور اپنی صدارت کا اعلان کر دیا۔صدر جمال عبدالناصر نے جھوٹے الزامات کے تحت اخوان پر پابندی لگادی اور اس کی ساری قیادت جیلوں مین ڈال دی گئی۔عبدالقادر عودہ(1954-1906ئ)اور ان کے پانچ ساتھی 1954میں پھانسی پر چڑھادیئے گئے۔اسی طرح مشہور مفسرومفکر سید قطب(1966-1906ئ)کو سن 1966ء میں اِسی حکومت نے سولی پر چڑھا دیا۔اخوان کے سربراہ کو مرشد عام کہا جاتا ہے۔اخوان کے دوسرے مرشد عام حسن الہضیبی(1973-1891ء )تھے جو بہت بڑے عالم دین تھے۔تیسرے مرشد عام ،عمر تلسمانی (1986-1904ئ)رہے جو پیشے سے وکیل تھے۔چوتھے محمد حامد ابوالنصر(متوفی1996ئ)تھے۔پانچویں مرشد عام مسطفیٰ مشہور(2002-1921ئ)منتخب ہوئے۔وہ بہت بڑے داعی اور مفکر تھے۔چھٹے مامون الہضیبی(2004-1921ئ)تھے جو پارلیمان کے رکن اور معروف ترین وکیل تھے۔ساتویں مرشد عام محمد مہدی عاکف حفظ اللہ(مولود1928ئ)تھے۔جو دورِ طالب علمی اخوان کے ساتھ رہے ، بار بار جیلوں میں جاتے رہے اور ثابت قدمی دکھائی۔2010ء میں آٹھویں مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع حفظ اللہ(مولود1943ئ)منتخب ہوئے۔وہ اس وقت جیل میں ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کی اور ان کے ساتھیوں کی حفاظت و مدد فرمائے(آمین)۔
Egypt
2011ء میں عرب بہار تیونس سے اٹھی اور زیادہ تر عرب ممالک میں پھیل گئی۔اسی کے نتیجہ میں مصر میں حسنی مبارک کی ڈکٹیٹرشپ کا خاتمہ ہوا۔2012ء میں جمہوری انتخابات میں اخوان المسلمون کو شاندار کامیابی ملی۔پارلیمان میں وہ سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئے۔اور عام ووٹو ںسے منتخب ہونے والے صدر مملکت ڈاکٹر محمد مرسی کو دنیا نے قبول کیا۔یہ قبولیت ظاہری تھی یا باطنی ؟،یہ تو خدا ہی جانتا ہے۔اس کے باوجود سازشیں جڑ پکڑنے لگیں۔ایک ہی سال کا عرصہ گزرا تھا کہ منتخبہ حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔پھر کیا تھاچن چن کر قیادت اور کارکنان کو جیلوں میں بند کیا گیا۔اٹھارہویں صدی کے اوائل سے اب تک اسلامی احیا اور سیاسی بیداری میں مصروف عمل رہنے والی یہ تحریک دراصل مصر کی ایک مذہبی اور سیاسی تحریک ہے ۔تحریک کا مقصد خالص دین اور مذہبی روایات کو زندہ کرنا اور ان کے مطابق مسلم معاشرہ اور حکومت کی تجدید کرنا تھا،لیکن آج یہ سیاسی،تنظیمی،معاشی،معاشرتی اور تجارتی جدوجہد کے ہر میدان میں موجود ہے۔ابھی چند دن قبل مصری فوجی حکومت نے معزول صدر محمد مرسی کو جیل توڑنے کے الزام میں سزائے موت سنائی ہے۔عالم اسلام کے معزز ترین علماء میں سے ایک علامہ یوسف القرضاوی کا نام بھی مذموم عدالتی فیصلے میں شامل ہے،جبکہ وہ عرصۂ دراز سے جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
نیز سزا پانے والوں میں اخوان کے دیگر ایک سو چار حامی بھی شامل ہیں۔اس بہیمانہ فیصلے کی مزمت ساری دنیا کے انصاف پسندوں نے کی ہے۔یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کیمون نے بھی اس فیصلے کی شدید مزمت کی ہے۔دوسری جانب ایمنسٹی انٹر نیشنل کے بعد امریکہ نے بھی مصر کے معزول صدر محمد مرسی کی عدالت کی جانب سے سزائے موت کے فیصلے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔برطانوی اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی دفتر خارجہ کے ایک عہدیدار نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا کہ ہم کو مصری عدالت کی جانب سے اجتماعی سزائے موت کے فیصلے سے گہری تشویش ہے۔ یہ فیصلہ معزول صدر مرسی اور ان کے سو سے زائد حامیوں اور اخوان المسلمون کے عہدیداروں کو دی گئی ہے۔گرچہ یہ اجتماعی ٹرائیلز اور سزائیں عالمی قوانین اور ذمہ داریوں کے خلاف ہیں، اس کے باوجود تشویش یا گہری تشویش کے اظہار کے ماسوا کوئی عملی اقدام کہیں سے ہوتا نظر نہیں آتا ہے۔یہ وہ حالات پس منظر اور تاریخی سچائی ہے جو مصر میں ایک طویل عرصہ سے اسلام پسندوں کے ساتھ روارکھی جارہی ہے ۔لیکن وہ صبر و تحمل اور پختہ عزم کے ساتھ انسانیت کی خیر و فلاح کے لیے قربانیوں پر قربانیاں دیئے جا رہے ہیں۔اس صورت میں ہماری بس یہی دعا ہے کہ اللہ عزو جل جو ہر چیز کا مکمل علم رکھتا ہے،اخوان اور اس کے کارکنان کودنیا و آخرت میں سر بلندی عطا فرمائے۔
ساتھ ہی وہ افراداور گروہ جو قیام عدل وانصاف اور امن و آشتی میں مصروف ہیں ،انہیں بھی حوصلہ بخشے کہ وہ اپنی سعی و جہد میں ہر ممکن قربانی دینے کے لیے تیار ہو جائیں۔کیونکہ مسائل میں مبتلا لوگوں کی مدداور پیغام امن سے بہتر اس روئے زمین پر کوئی عمل ممکن ہی نہیں ہے۔ گفتگو کے پس منظر میں آج اگر کوئی صدا کہیں سے آرہی ہے تو وہ یہی کہ صدر مرسی ، ہم آپ کو سلام پیش کرتے ہیں، کیونکہ مصر میں انصاف کے بغیر قید خانہ حضرت یوسف کے لیے تھا جبکہ:”انہوں نے کہا، اے میرے پروردگار! مجھے قید منظور ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں”(سورة یوسف:٣٣)۔مصر میں قید خانہ سید قطب کے لیے تھا۔جبکہ انہوں نے کہا :”ایک رہنما کے لیے یہ مناسب نہیں کہ رعایتیں حاصل کرے۔تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، میں نے شہادت کی خاطر پندرہ سال جدوجہد کی ہے”۔وہیں پھانسی سے چند لمحوں قبل انہوں نے کہا:” یہ انگلی جو نماز میں اللہ کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہے، اس نے اس جابر کے اقتدار کی توثیق میں خط لکھنے سے انکار کر دیا ہے”۔مصر میں انصاف کے بغیر قید خانہ زینب الغزالی کے لیے تھا۔جبکہ انہوں نے کہا تھا:عبدالناصر کو قتل کرنا اخوان المسلمون کے مقاصد میں نہیں ہے۔بلکہ ہم تو صرف توحید،اللہ کی عبادت،قرآن اور سنت رسول اللہ کو نافذ کرنا چاہتے ہیں۔
Mohammad Asif Iqbal
تحریر : محمد آصف اقبال، نئی دہلی maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.com