مصر میں یہودیوں کے عمل ودخل سے جمہوری طورپر منتخب محمد مرسی کی حکومت کو بے دخل کرکے جو فوجی بغاوت وجود میں لائی گئی۔ اس کے خلاف پورے مصر میں ایک پُرامن احتجاج کو جو دور شروع ہوا تھا۔اس سے فوجی حکمراں اور ان کے آقا نا صرف گھبرا گئے بلکہ خوف زدہ ہو گئے۔ کیونکہ یہ احتجاج اب محمد مر سی حکومت کی مصر کے اقتدار پر بحالی کا پُر زور مطالبہ کر رہے تھے۔ مصر کے اقتدار پر ناجائز طور پر فائز فوجیوں کا ٹولہ جن کو مغربی ممالک کی اعلانیہ حمایت حاصل ہے۔ اس ٹولہ میں مصر ی عوام کے سب سے بڑے دشمن محمد البرادی جن کومصر کی فوجی حکومت نے امریکہ کے اشارے پر وہاں ان کو نائب صدر نامزد کیا گیا تھا۔ جو امریکہ کے خاص مشیر ہیں۔
جن کی ہدایت و مشورہ پر پُر امن احتجاج پر آمادہ مصری عوام کا قتل عام کرایا گیا انہوں نے اپنا کام مکمل کرکے اب راہ فرار اختیار کر لی۔ جو کہ بہت شرمناک ہے۔ ان کا زبردستی حاصل کئے گئے عہدے سے ازخود ہی مستفی ہونا حقائق کی ازخود ہی وضاحت کرتا ہے۔ اب جبکہ اخبارات کی اطلاعات کے مطابق مصر میں 2200 افراد کا نئی فوجی قیادت کے دور اقتدار میں میں قتل کیا جانا۔ اشارہ دیتا ہے کہ منتخب حکومت کو اقتدار سے بے دخل کر کے نا صرف محمد مرسی کے ساتھ زیادتی کی گئی بلکہ مصری عوام کے ساتھ بھی بہت بڑی غداری کی گئی ہے۔ ایک اتنی بڑی تعداد کا قتل یہودیوں کی شرارت سے ظہور پذیر ہوا ہے۔ اس بزدلانہ کاروائی جس میں نہتے عوام پر براہ راست گولیاں برسائی گئیں۔ اس پر مصر کی فوجی حکومت کو کچھ بھی اظہار ندامت نہیں۔ اور اِس ناجائز فوجی سرکار کو مغربی ممالک کی حمایت کا مسلسل جاری رہنا۔
Terrorism
بہت زیادہ افسوسناک ہے۔ اتنے بڑے قتل عام کے رونما ہونے کے بعد اس ظلم و زیادتی کے خلاف جو لوگ صف آراء ہیں۔ الٹا ان ہی احتجاجیوں کو مجرم بنانے کی ایک نئی کوشیش کا شروع کیا جا نا اخلاقی گراوٹ کی بہت بڑی دلیل ہے۔ جس سے ان پر تشدد بھڑکانے، دھشت گردی کو بڑھاوا دینے کا جھوٹا الزام لگا کر ان کو کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکے۔ مغربی ممالک کی دوغلی روش طشت از بام ہے۔کہ شام کے منتخب حکمراں اگر باغیوں کے خلاف کاروائی کرے تو انسانی حقوق پامالی کا الزام فوراًان پر عائد کردیا جاتا ہے۔ مصرکی ناجائز فوجی حکومت پُر احتجاجیوں پر ظلم و ستم کرتی ہے۔ تو اس پر ایسا الزام نہیں لگتا۔ جیسے شام کے موجودہ حکمرانوں پر لگایا جاتا ہے۔ یہودی ٹولہ کی مذہب اسلام کے خلاف بغاوت و مسلمانوں کی نسل کشی کے تازہ واقعات نے ثابت کر دیا۔ کہ اس خطہ میں مغربی طاقتوں کو اپنے مفاد کی فکر ہے اس کو جائز طریقہ سے یا ناجائز طریقہ سے حاصل کرنا ان کا اصل مقصد ہے۔
لیکن بے قصوروں کو مجرم بنانے کی یہ روش جس پر وہ چل پڑے ہیں۔ ان کے خود کیلئے ہی انشاء اللہ خطرناک ثابت ہو گی۔ مصر میں جو لوگ نا گہانی شہید کر دئے گئے ہیں۔ ان کے ورثہ کو صبر جمیل اور شہیداء کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ اب مصر کے حالات کی درستی کیلئے ضروری ہے۔ کہ معزول کئے گئے صدر محمد مرصی کو مصر کا اقتدار جلد سے جلد سے بحال کیا جائے۔جس سے وہاں خون خرابہ فوری طور بند ہو سکے۔
Egypt Army
لیکن دوسری طرف مغربی طاقتیں جو کہ محمد مرصی سے خوف زدہ ہیں۔ وہ چاہتی ہیں۔ مستقبل قریب میں محمد مرصی اور ان کی جماعت کو اقتدار سے باہر رکھنے کیلئے ان پر تا حیات پابندی لگا دی جائے۔ تاکہ وہ کبھی بھی بر سراقتدار نہ آسکیں۔ مصر کی ناجائز فوجی حکومت مصری عوام کے مفاد کے بجائے بیرونی مفاد کو زیادہ عزیز رکھتی ہے۔ ان کی خوشنودی کیلئے وہ کوئی بھی قدم اٹھا سکتی ہے اور ہر ناجائز کام کر سکتی ہے۔
بڑے پیمانے پر مصری عوام کا سلسلہ وار قتل عام سے مصر کی ناجائز فوجی حکومت و مغربی طاقتوں کی گھبراہٹ و بوکھلاہٹ سامنے آرہی ہے۔ خود کو پاک و صاف کہلوانے کیلئے یہ ملزم لوگ اب اپنے گناہوں کو دوسروں پر لادھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اب یہ مصری عوام کے ذریعہ منتخب مرصی حکومت جس کو معزول کردیا گیا ہے۔ اس پر کسی طرح کی ناجائز پابندیاں لگانے کی فوجی حکومت کی ہر کوشیش ناکام ہو گی اور پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ تو یہ جمہورت اور انصاف کا اعلانیہ قتل ہو گا۔