قاہرہ (اصل میڈیا ڈیسک) مصر کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ دارالحکومت قاہرہ میں حملوں کا منصوبہ تیار کرنے والے شدت پسند سکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مار دیے گئے ہیں۔ اس میں ایک پولیس افسر بھی ہلاک ہوا ہے۔
مصری وزارت داخلہ کے مطابق قاہرہ کے امیریاہ ضلعے میں مشتبہ شدت پسندوں کے ٹھکانوں کا پتہ چلا تھا جس پر سکیورٹی فورسز نے چھاپہ مارا جس کے بعد فریقین میں کئی گھنٹوں تک فائرنگ ہوتی رہی۔ اس تصادم میں سات مشتبہ شدت پسندوں سمیت ایک پولیس افسر بھی ہلاک ہوا۔ تین دیگر پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاع ہے۔
مصر کی وزارت داخلہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ”تکفیری نظریات کے حامل دہشتگردوں کے ایک گروہ کا پتہ چلا تھا، جن کے قاہرہ کے شمال و جنوب میں ٹھکانے ہیں اور وہاں سے وہ دہشتگردانہ کارراوائیاں کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔” مصر میں حکام ‘تکفیری’ کی اصطلاح ایسے اسلامی شدت پسندوں کے لیے استعمال کرتے ہیں جو اپنے نشانہ بننے والے متاثرین کو کافر قرار دیتے ہیں۔
مصری وزارت داخلہ کے مطابق مشتبہ شدت پسند ایسٹر کے جشن کے موقع پر قدامت پسند قبطی مسیحیوں کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ مصر میں اقلیتی طبقے قبطی مسیحیوں کی تقریبا ًدس فیصد آبادی ہے جس کا شمار دنیا کی قدیم ترین مسیحی برادریوں میں ہوتا ہے۔ عالمی سطح پر مسیحیوں کے بڑے تہوار ایسٹر کی تقریبات گزشتہ ہفتے ہی منائی جا چکی تاہم مصر کے قبطی عیسائی اسے انیس اپریل کو سخت سکیورٹی میں منائیں گے۔
حکام کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کے جس ٹھکانے کو نشانہ بنایا گیا وہاں موجود سبھی سات مشتبہ شدت پسند ہلاک ہوگئے اور گھنٹوں چلنے والے اس تصادم میں لیفٹنٹ کرنل محمد الحوفی نامی ایک پولیس افسر بھی ہلاک ہوگیا۔
وزارت داخلہ کے مطابق اس آپریشن میں تین دیگر پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔ سکیورٹی فورسز نے اس رہائشی عمارت سے، جس میں مشتبہ شدت پسند چھپے ہوئے تھے، چھ رائفل، بندوقیں اور بڑی تعداد میں گولہ بارود بھی برآمد کیا ہے۔ حکام کے مطابق جائے واردات کے پاس کی ایک دوسری عمارت سے بھی اسلحہ بر آمد کیا گیا ہے۔
مصر میں سن 2017 میں ایک قبطی چرچ پر حملے کے بعد سے ہی ہنگامی حالات نافذ ہیں۔ اس حملے میں 33 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ مصر کے
جزیرہ نما سینائی کے شمالی علاقوں میں اسلامی شدت پسند ایسٹر سے قبل آنے والے مسیحیوں کے تہوار پام سنڈے کی تقریب کو نشانہ بناتے رہے ہیں، جس میں کافی لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔
حکام نے 2018 میں ایسے شدت پسندوں کے خلاف ایک بڑے آپریشن کا آغاز کیا تھا جس میں تقریبا ساڑھے آٹھ سو مشتبہ شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا جبکہ اس آپریشن میں سکیورٹی فورسز کے بھی 60 افراد ہلاک ہوئے تھے۔