مصر (اصل میڈیا ڈیسک) انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مصر کی جیلوں کی ناگفتہ بہ صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
عرب بہار کے 10 سال بعد بھی مصری جیلوں میں ہزاروں افراد مقید ہیں۔ پیر 25 جنوری کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جیلوں میں بہت زیادہ بھیڑ کے سبب وہاں غیر انسانی صورتحال پیدا ہو چُکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق قیدیوں کو غیرصحت بخش کھانا دیا جاتا ہے اور انہیں اندھیرے اور غیر ہوادار سیلز میں رکھا جاتا ہے۔ صاف پانی اور بیت الخلا تک بہت کم قیدیوں کی رسائی ہے۔ یہ ناگفتہ بہ صورتحال اور صحت کی ناکافی دیکھ بھال قیدیوں کو غیرضروری کرب اور تکلیف پہنچانے کا سبب بن رہی ہے۔ ایمنسٹی نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ صورتحال قیدیوں کی موت کا سبب بن رہی ہے۔ قیدیوں کا ان کے رشتہ داروں سے رابطہ بہت کم ہے کیونکہ انہیں اپنے گھر والوں سے رابطہ کرنے کی اجازت دینے سے مکمل طور پر انکار کردیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مصر میں مہلک کورونا وبا کے خلاف جنگ میں یکساں حکمت عملی اختیار نہیں کی گئی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں 67 افراد کے بارے میں ایک دستاویز جاری کی ہے، جن میں سے 10 حراست میں ہلاک ہوئے تھے اور دو 2019ء یا 2020ء میں رہائی کے فورًا بعد ہی وفات پا گئے۔
ایمنسٹی کے پاس جیل حکام کے قیدیوں کو نشانہ بنانے کے ثبوت موجود ہیں۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کی جرمن شاخ کے سیکرٹری جنرل مارکوس بیکو کے بقول، ”حکومت کے ناقدین کو مناسب غذا اور اپنے کنبہ سے ملاقات کی اجازت سے انکار کیا جاتا ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق 114,000 افراد مصر میں قید ہیں۔ حکومت تشدد اور خراب حالات کی خبروں کو مسترد کرتی ہے۔ سرکاری نیوز سائٹ الاحرام نے ایسی خبروں کو ’’منفی‘‘ افواہیں قرار دیا ہے۔
گذشتہ ہفتے وزارت داخلہ نے بدنام زمانہ جیل سے ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں قاہرہ کی ‘تورات جیل‘ میں دکھایا گیا کہ قیدیوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا جا رہا ہے۔ طبی سہولیات کا معیار بہت اچھا ہے اور یہ کہ قیدی مطالعہ کر رہے ہیں یا پینٹنگ اور بیکنگ جیسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
25 جنوری 2011ء کو وہ کچھ ہوا جو اس ملک میں پہلے کبھی کسی نے سنا ہی نہیں تھا۔ قاہرہ میں، اس وقت کے صدر حسنی مبارک کے خلاف پہلا اتنا طاقتور احتجاج ہوا جس میں قریب 25 ہزار افراد سڑکوں پر نکل آئے۔
اس سے ایک ہفتہ قبل ہی، ایک سیاسی کارکن عاصمہ محفوظ نے اپنے موبائل فون کے کیمرے سے ایک جوش و ولولے سے بھر پور اپیل ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا کے ذریعے لاکھوں مصری باشندوں تک اپنا پیغام پہنچایا تھا۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا تھا، ”اگر ہمارے پاس ابھی بھی تھوڑا سا وقار باقی رہ گیا ہے اور ہم انسانوں کی طرح اس ملک میں رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں 25 جنوری کو سڑکوں پر نکلنا ہوگا اور اپنے حقوق کے حصول کا مطالبہ کرنا ہوگا۔‘‘
تین دن بعد 28 جنوری کو، قریب ایک لاکھ مظاہرین سڑکوں پر نکل کر سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ پولیس سے خوفزدہ نہیں ہیں تو ان میں سے ایک نے تمام مظاہرین کی طرف سے بیباکانہ جواب دیتے ہوئے کہا کہ اُسے اپنی ذات نہیں بلکہ اپنے ملک کی فکر ہے۔ ایک کم عمر انجینیئر کا کہنا تھا، ”ہم فرعون کے دور جیسی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مگر آج غلام اپنے فرعون آقاؤں کا شکار کرنے نکلے ہیں۔‘‘
28 جنوری کو غریب محلوں کے رہائشی، کاریگر اور دہاڑی کرنے والے مزدور بھی مظاہرے میں شامل ہو گئے۔ وہ جس تکلیف میں زندگی بسر کر رہے تھے، اس سے تنگ آچکے تھے۔ اس کے علاوہ اخوان المسلمون کے ممبرز بھی مظاہروں میں شامل ہونے لگے جبکہ یہ شروع میں پیچھے ہٹ گئے تھے۔
مظاہرین نے قاہرہ کے مرکزی تحریر اسکوائر پر قبضہ کیا اور وہ اس وقت تک راستہ روکے رکھنا چاہتے تھے جب تک کہ حسنی مبارک استعفیٰ نہ دے دیں۔
جلد ہی چوک پر میلے کا سا ماحول نظر آ رہا تھا۔ مظاہرین انقلابی تحریک کے ذریعے آزادی کے مطالبے کا بھرپور اظہار کر رہے تھے۔ کہیں پوسٹر اور آرٹ کے ذریعے آزادی کا مطالبہ ہو رہا تھا تو کہیں موسیقار اور کامیڈین سیاسی طنز و مزاح کا پروگرام پیش کر کے مظاہرین کا ساتھ دے رہے تھے۔
لاکھوں افراد کچھ دنوں تک تحریر اسکوائر پر جمع ہوتے رہے۔ سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں، انقلاب کے دوران قریب 850 مظاہرین مارے گئے۔
11 فروری کو شام چھ بجے کے قریب ملکی انٹیلیجنس سروس کے سربراہ عمر سلیمان نے صدر حسنی مبارک کے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ ساتھ ہی یہ کہا کہ فی الحال فوج اقتدار سنبھال رہی ہے اور وہ ملک سے خونریزی کا خاتمہ اور ملک کو جمہوریت کی طرف گامزن کرنا چاہتی ہے۔
اگلے ڈیڑھ سال میں، اخوان المسلمون پارٹی نے پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کی اور اس کے امیدوار محمد مرسی نے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی لیکن اخوان المسلمون بظاہر سیاسی نظام کی تجدید نہیں کرنا چاہتی تھی، وہ صرف اپنے نظریات کے مطابق ملک کی تشکیل نو کے لیے اقتدار حاصل کرنا چاہتی تھی۔
بہت سے مصری باشندے اسلام پسندوں سے خوفزدہ تھے۔ مرسی کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہونے لگے۔ مصریوں کو عبدالفتاح السیسی، جو اس وقت کے وزیر دفاع تھے، ایک نجات دہندہ دکھائی دینے لگے۔ تین جولائی 2013ء کو، فوج نے ملک کے پہلے آزادانہ طور پر منتخب صدر کا تختہ اُلٹ دیا۔
2011ء کے انقلاب کے قریب ڈھائی سال بعد ہی، مصر میں فوج دوبارہ اقتدار میں آگئی۔ عبدالفتاح السیسی 2014ء سے صدر کے منصب پر فائز ہیں۔
مصری باشندے انقلاب کی میں آزادی کے خواہشمند تھے۔
2019 میں، ایک آئینی ترمیم نافذ ہوئی جس کی مدد سے 2030ء تک السیسی اپنے عہدے پر قائم رہ سکتے ہیں۔ مشہور مصری ماہر سیاسیات حسن نافع حیرت زدہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’اگر آئین آمریت کو قانونی حیثیت دیتا ہے تو اس کے سیاسی نظام پر خطرناک اثرات رونما ہوتے ہیں۔ اگر اظہار رائے کی آزادی کو ختم کردیا جاتا ہے اور صرف ایک آدمی کے پاس حرف آخر کہنے کا حق ہو تو اس سے انتہا پسندی جنم لیتی ہے۔‘‘
حسن نافع کو چند ماہ بعد گرفتار کر لیا گیا اور چھ ماہ تک انہیں قید میں رکھا گیا۔ وہ ان ہزاروں مصریوں میں سے ایک ہیں جنہیں حالیہ برسوں میں پھر جیل بھیج دیا گیا۔ مصر میں حزب اختلاف اور حکومت کے ناقدین انتہائی خطرناک حالات میں زندگی گزا رہے ہیں۔
السیسی نے 2018ء کے آغاز میں انتہائی تحکمانہ انداز میں اپنے اقدامات کی وضاحت کرتے ہوئے جو کہا تھا اُس میں دراصل 2011ء کے انقلاب کے پس منظر میں مظاہرین اور انقلابیوں کے لیے دھمکی شامل تھی۔ ان کا کہنا تھا، ”مصرمیں تب جو کچھ ہوا وہ پھر کبھی نہیں ہوگا۔ جو لوگ اس وقت نامراد رہے وہ آج بھی ناکام رہیں گے۔‘