اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں سول سوسائٹی کی تنظیم ‘اے پی ایس شہدا فورم‘ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستانیوں کے قتل عام میں ملوث تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے حوالے سے وضاحت کرے کہ وہ کہاں ہے۔
تنظیم کے صدر فضل خان ایڈوکیٹ نے کہا، ”ہم پاکستان کی اعلیٰ حکومتی شخصیات، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے سوال کرتے ہیں کہ تین سال سے ان کی ہائی سکیورٹی تحویل میں موجود یہ شخص اب کہاں ہے؟ اگر وہ ان کے پاس ہے تو اسے عدالت میں پیش کیوں نہیں کرتے؟ اگر وہ ان کے پاس سے نکل گیا ہے، تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟‘‘
فضل خان نے بتایا کہ اس سلسلے میں انہوں نے ہفتے کو پشاور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کر دی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”ہم پانچ سال سے آرمی پبلک اسکول پشاور میں مارے جانے والے اپنے بچوں کے لیے انصاف مانگ رہے ہیں، لیکن ہماری شنوائی نہیں ہو رہی۔‘‘
اے پی ایس سانحے میں مسلح حملہ آوروں نے 132بچوں کا قتل عام کیا، جن میں فضل خان کا چودہ سالہ بیٹا صاحبزادہ عمر خان بھی شامل تھا۔
پاکستان میں وزیر داخلہ اور وزیر دفاع احسان اللہ احسان کے فرار سے متعلق معاملے پر لاعلمی کا اظہار کر چکے ہیں، جب کہ فوج نے صحافیوں کی طرف سے بارہا پوچھے گئے سوالات پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
احسان اللہ احسان نے جمعرات کو سوشل میڈیا پر ایک آڈیو پیغام میں کہا کہ وہ پاکستانی تحویل سے نکل گئے ہیں۔ تب سے وہ پاکستان کے کئی صحافیوں سے رابطے میں ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ خیر خیریت سے ترکی پہنچ چکے ہیں۔ لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وہ پاکستان یا افغانستان میں کسی اور محفوظ جگہ پر بھی ہو سکتے ہیں۔
احسان اللہ احسان کے مطابق انہوں نے تین سال پہلے پاکستانی سکیورٹی حکام کے ساتھ ایک ڈیل کے تحت خود کو ان کے حوالے کیا۔ لیکن ان کے مطابق ان سے جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے نہ ہوئے۔
پاکستان میں پشتون تحفظ مومنٹ کا الزام ہے کہ احسان اللہ احسان جیسے قاتلوں کو فوج کے افسران کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ پاکستانی فوج ان الزامات کو رد کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ فوج نے ملک سے دہشت گردی ختم کرنے کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔
پاکستانی میڈیا پر بعض ریٹائرڈ فوجی افسران کا کہنا ہے کہ احسان اللہ احسان نے سرنڈر کرنے کے بعد فوج کے انٹیلیجنس اداروں کے ساتھ بھرپور تعاون کیا اور ایسی معلومات دیں جن سے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی میں بڑی مدد ملی۔ لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ ‘احسان اللہ احسان نے خود تو لوگوں کو نہیں مارا تھا اور وہ تو محض ترجمان تھا اس لیے ایسے افراد کے لیے گنجائش رکھنی چاہیے‘۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حکام میڈیا کے ذریعے لوگوں میں احسان اللہ احسان جیسے جرائم پیشہ شخص کے لیے نرم گوشہ اور ہمدردی پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
پشاور اور قبائلی علاقوں کے صحافیوں کا کہنا ہے کہا کہ جس زمانے میں احسان اللہ احسان فون کرکے ملک میں بم دھماکوں اور حملوں کی فخریہ ذمہ داری لیتے تھے، تو اسے رپورٹ کرنا لازمی ہوتا تھا ورنہ وہ انہیں بھی جان مارنے کی دھمکیاں دیتے تھے۔
’آرمی پبلک اسکول شہدا فورم‘ کے صدر فضل خان کے مطابق، ”احسان اللہ احسان ہمارا مجرم ہے۔ اس نے ہمارے بچوں کے قتل کے ساتھ ساتھ کئی معصوم لوگوں کو مارنے کی ذمہ داری لی۔ اسے ریاست کیسے معاف کر سکتی ہے؟‘‘
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا، ”ہم لوگوں کو اسی کا خدشہ تھا۔ اسی لیے ہم نے مئی دو ہزار سترہ میں پشاور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی کہ اسے ایمنسٹی دینے کی کوشش نہ کی جائے۔ عدالت نے اسی سال دسمبر میں حکم دیا کہ حکومت احسان اللہ احسان کو کوئی رعایت نہیں دے سکتی اور اسے عدالت میں پیش کیا جائے۔‘‘
فضل خان کے مطابق اس شخص کو کبھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا، ”ہمیں جواب چاہییے کہ سب کس کی ایما پر ہورہا ہے؟‘‘ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ سوال کرنے والوں کو خطرات ہیں اور انہیں دھمکیاں بھی ملتی ہیں، لیکن ”ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے بچے تو گئے، وہ واپس نہیں آئیں گے۔ لیکن آئیندہ کبھی کسی کے ساتھ ایسا ظلم نہ ہو، ہم اس لیے یہ جدوجہد کر رہے ہیں۔‘‘