تحریر : اختر سردار چودھری، کسووال عید الفطر کو چھوٹی عید بھی کہتے ہیں۔ یہ عید ہر سال رمضان المبارک کے با برکت مہینے کے ختم ہونے پر پیغام نشاط لاتی ہے۔جہاں اسے عیدالفطر کہا جاتا ہے۔ وہاں اس کو میٹھی عید بھی کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے وہ نیک بندے جو روزے رکھتے ہیں اور دن رات اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ ان کے لیے یہ مبارک تقریب حقیقی معنوں میں عید سعید ہے۔ اس عید سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا فرض ہے۔ اس لیے اسے عید فطر کہتے ہیں۔
ابو دائود شریف میں روایت ہے حضور نبی اکرم ۖ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے اس زمانہ میں اہل مدینہ سال میں دو دن (مہرگان۔نوروز) خوشی کے دن مناتے تھے یعنی ان کی عید تھی لفظ عید کا مطلب بھی خوشی ہے ۔آپ ۖنے فرمایا یہ کیا دن ہیں ؟ لوگوں نے عرض کی ”جاہلیت میں ہم لوگ ان دنوں میں خوشیاں منایا کرتے تھے۔فرمایا:”اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے ان سے بہتر دو دن تمہیں دیئے ۔عید الفطر ،عید الضحٰی اسلام نے ان ایام میں تجمل و زیب و زینت اور رکھ رکھائو کو تو باقی رکھا ۔البتہ زمانۂ جاہلیت کی رسم و رواج ۔لہوو لعب اور کھیل کود میں وقت کے ضیاع کو ختم کر دیا اور جشن کے ان ایام کو خدائے بزرگ و برتر کی اجتماعی عبادت کے ایام بنا دیا تاکہ ان کا یہ تجمل و اجتماع یاد الہٰی سے غفلت میں بسر نہ ہو۔
Eid ul Fitr
ایک طرف اسلام نے اپنے ماننے والوں کیلئے دنیاوی فرحت و انبساط کے اہتمام کی اجازت دی تو دوسری طرف ان کیلئے بندگی کے دروازے کھول دئیے تاکہ یاد الہی سے بھی غافل نہ رہیں اور اسلامی برادری سے شناسائی کے مواقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ہر مسلمان خواہ وہ کسی ملک اور کسی شہر میں ہو اپنی حیثیت کے مطابق عید کی خوشیاں مناتا ہے۔رشتہ دار ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے ہیں ،پرانے دوست ملتے ہیں ،عید کے دن مسلمان ایک دوسرے سے سابقہ تمام رنجشیں ختم کر دیتے ہیں ،جو اپنوں سے دکھ ملیں ہوں ان کو اس دن بھول جاتے ہیں ۔دل صاف کر لیتے ہیں ۔گلے ملتے ہیں تو گلے مٹ جاتے ہیں۔
عید کا دن ہے گلے ہس کے لگا لو ہم کو ۔۔۔۔موقع بھی ہے ،دستور بھی ہے رسم دنیا بھی ہے
اگر ہم دین اسلام کے احکام پر اگر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ دین اسلام کا منشا یہ ہے کہ بنی آدم ،مسلمان ایک ووسرے کے دکھ سکھ سے لاتعلق نہ رہیںاسی مقصد کے تحت نماز پیج گانہ محلہ کی مسجد میں، جمعہ جامع مسجد میں، حج و عمرہ کے لیے ساری دنیا سے مسلمان ایک جگہ مکةالمکرمہ میں جمع ہوتے ہیں ،اسی طرح عید پر شہر و گائوں کے افراد کا ایک دوسرے کے قریب آنا اور سب سے بڑھ کر تمام رشتہ داروں کا ایک دوسرے سے ملنا پر دیس میں کام کرنے والے اپنوں کی خوشیوں میں شامل ہو نے کے لیے اس دن واپس گھر لوٹ آتے ہیں ،ایک دوسرے کو تحفے تحائف دینا ان کے دکھ سکھ میں شامل ہونا وغیرہ۔ جب یوم عید آتا ہے ۔ شیطان چیخ چیخ کر روتا ہے ۔اس سے مسلمانوں کی خوشی دیکھی نہیں جاتی۔اس لیے بھی کہ شیطان مسلمانوں کے درمیاں اخوت و محبت سے خوش نہیں ہوتا ۔آئیے آج ہم ایک دوسرے سے عہد کریں کہ ایک دوسرے سے پیار اورمحبت سے رہیں گے۔ کسی کو دکھ اور تکلیف نہیں دیں گے۔ ہمیشہ ایک دوسرے کی خیر چاہیں گے مستحق افراد کی مدد کریں گے۔ انہیں دکھ اور سکھ کا ساتھی بنائیں گے۔ کسی کی دل آزادی نہیں کریں گے۔ کسی کو تکلیف میں دیکھ کر اس کے دکھ بانٹیں گے۔ اسے اپنی خوشیوں میں شریک کریں گے اور ایک دوسرے کی سلامتی کے لیے دعائیں مانگتے رہیں گے۔
عید منانے کا مقصد کیا ہے ،مقصد ہے اللہ کی خوش نودی اللہ کا شکر ادا کرنا جو اس نے ہم کو نعمتیں دیں ،یہ شکر ہم خوش ہو کر مناتے ہیں خوشی انسانی فطرت ہے ،خوشی کے بے شمار سائنسی، روحانی، جسمانی فوائد ہیں اللہ بھی چاہتا ہے انسان خوش خوش رہے ،مگر ہم کو سوچنا ہے کہ خوشی کیسے منائی جائے،خوشی کا مقصد ہے اللہ کی رضا جو تب ملے گی اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کر کے عید کی خوشیاں منائیں مگر اس بات کا خیال رکھ کر کہ کسی کے لیے وہ غمی کا باعث نہ بنے دوسروں کو خوشیاں دے کر ،خاص کر کم مایہ کو اپنے ساتھ خوشیوں میں شامل کریںتاکہ کوئی خوشیوں سے محروم نہ رہے اسی طرح ہم کو عید کی حقیقی خوشی ملے گی۔
عید کے دن اپنے عزیزوں، دوستوںخاص کر ضرورت مندوں کو تحائف دیں ،تحفہ دینا سنت رسول ۖ بھی ہے اس سے محبت بڑھتی ہے۔ تحفہ دوسرے کی ضرورت کے مطابق دیا جائے نہ کہ اپنی پسند کے مطابق آپ بھی خوب خوشیاں منائیں نئے کپڑے نئے جوتے خریدیں ۔لیکن اس خوشی کے موقع پر اپنے غریب مسلمان بھائیوں کو بھی نہ بھولیں، حسب توفیق انہیں بھی اپنی عید کی خوشیوں میں ضرور شریک کریں۔
Eid Celebrate
عید اصل میں ہے ہی دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کا نام ہے یا دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہونے کا نام ہے اگر ہمارے پڑوس میں خاندان میں کوئی عید کی خوشیوں میں شامل نہیں ہو سکتا غربت کی وجہ سے تو اس کی مدد کرنے سے ہی عید کی دلی خوشیاں ملیں گیں ، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ مہنگائی نے عوام میں سے اکثریت کی زندگی مشکل کر دی ہے ہم کو چاہیے خاص طور پر ان مسلمانوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کریں جن کو ایک وقت کی روٹی بھی نصیب نہیںہوتی تا کہ وہ غریب مسلمان بھی مسرتوں اور خوشیوں کا تھوڑا سا حصہ حاصل کر سکیں اور ویسے بھی ایک غریب مسلمان کی خوشی کے موقع پر بے لوث مدد اور خدمت کرنے سے جو روحانی خوشی حاصل ہوتی ہے وہ لازوال ہوتی ہے۔
ایسی مدد کرنے پر خدا اور رسول ۖ بھی خوش ہوتے ہیںاور اگر ہو سکے تو عید سے چند دن پہلے ان کی مدد کر دیں تاکہ وہ اپپنے بچوں کے لیے کپڑے خرید سکے ،یہ ہمارا ان پر کوئی احسان نہیں ہے بلکہ اللہ کی طرف سے ہم پر فرض ہے اللہ نے ہمارے رزق میں ان کا حصہ رکھا ہے۔ عید کے دن خوشیاں منانا سنت نبوی ۖ ہے ہم یہاں مختصر عید الفطر کے مسنون افعال و اعمال لکھ رہے ہیں ۔ آپ ۖ نے چاند رات اللہ عبادت کرنے ،جاگنے کے بارے میں فرمایا جس نے عیدین کی رات(یعنی شب عید الفطر اور شب عید الضحٰے طلب ثواب کیلئے) قیام کیا اس دن اس کا دل نہیں مرے گا۔جس دن لوگوں کے دل مرجائیں گے۔(ابن ماجہ)عید کے دن غسل کرنا ،حجامت بنوانا،ناخن ترشوانا،مسواک کرنا،اچھے کپڑے پہننا، خوشبو لگانا ،انگوٹھی پہنناعید گاہ پیدل جانا،حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ۖ عید کو (نمازعیدکیلئے) ایک راستہ سے تشریف لے جاتے اور دوسرے راستے سے واپس تشریف لاتے۔(ترمذی شریف)،خوشی ظاہر کرنا،کثرت سے صدقہ کرنا،آپس میں مبارک باد دینا ،بعد نماز عید مصافحہ کرنا اور معانقہ یعنی بغلگیرہوناوغیرہ۔آخر میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں حقیقی عید سعید کی خوشیاں نصیب فرمائے۔آمین!