تحریر : شہزاد سلیم عباسی خدائے وحدہ بزرگ برتر کا کرم بالائے کرم ہے کہ اس نے ماہ رمضان کو عظیم و لازوال نعمت بنا کر اپنے بندوںکو عطا کیا اور پھراس عظیم نعمت کے اختتام کے ساتھ ہی عیدالفطر کی نعمت عظمٰی سے سرفراز فرمایا، جو در حقیقت اللہ کی طرف سے ان خوش بخت اور نیک بخت مسلمانوں کو بہترین اجرو صلہ ملنے کا دن ہے جنہوں نے ماہ مقدس کو ا سکے تمام تر حقوق، نماز، روزہ اور دیگر عبادات سے مزین کر کے گزارا۔عید الفطر اس تجدید ایفاء کا دن ہے جو ہم نے رمضان کے تینوں عشروں میںرحمت، مغفرت اور جہنم سے خلاصی کی دعائیں کرتے کیا تھا۔
رمضان کا بنیادی مقصد انسان کی مشق و عمل میں مزید پختگی اور مستقل مزاجی لانا کہ پھر انسان پورا سال اللہ کی غلامی اور بندوں کی خدمت میں گزارے۔ عید باہمی اتفاق و محبت بانٹنے کا دن ہے۔ عید لوگوںکے کام آنے اور ان کے دکھ درد بانٹنے کا دن ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ عیدالفطر اپنا جائزہ اور محاسبہ کرنے کا دن بھی ہے کہ آیا جو رمضان اللہ نے ہمارے لیے سجایا تھا ہم اس کا پاس رکھ سکے؟ اور اسے اللہ اور اس کے حبیب ۖ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق گزار سکے؟۔اور کیا ہم نے پورے ماہ میں جو تراویح ، نمازیں ، روزے اور مختلف عبادات کر کے رضائے ربی حاصل کرنے کی سعی و کوشش کی ہے اورتوبہ و مغفرت کے ذریعے اپنے ایمان و روح کو تطہیر وتربیت کے دائرے میں رکھنے کا جو عزم مصمم کیا ہے۔
کیا آج کے دن سے ہمیںاس پر کاربند رہنے کا یقین کامل حاصل ہے؟ کیوںکہ عیدالفطر جو کہ انعام خاص حاصل کرنے کادن ہے، اس روز اللہ تعالیٰ کی شریعت کی خلاف ورزی کرنا اور کفار کے طریقے کے مطابق بے راہروی اختیار کرنا، گندی فلمیں اور ڈرامے دیکھنا، اور لڑکیوں کا رمضانی اسکارف اور دوپٹے اتار کر نیم عریاں لباس میں شوز میں آکر رقص و سرور کی محافل میںجھومنا یقینا شیطانی طریقہ تو ہوسکتا ہے رحمانی نہیں۔عید کے دن لوگ خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے کاشانہء خلافت پر حاضر ہوئے تو کیا دیکھا کہ آپ دروازہ بند کرکے زار و قطار رو رہے ہیں، لوگوں نے تعجب سے عرض کیا، یا امیر المومین! آج تو عید کا دن ہے، آج تو شادمانی و مسرت اور خوشی منانے کا دن ہے، یہ خوشی کی جگہ رونا کیسا؟ آپ نے آنسو پونچھتے ہوئے فرمایا، اے لوگو! یہ عید کا دن بھی ہے اور وعید کا دن بھی ہے، آج جس کے نماز روزہ مقبول ہوگئے، بلاشبہ اس کیلئے آج عید کا دن ہے لیکن آج جس کی نماز روزہ کو مردود کرکے اس کے منہ پر مار دیا گیا ہو، اس کے لئے تو آج وعید ہی کا دن ہے اور میں تو اس خوب سے رو رہا ہوں کہ آہ!مجھے یہ معلوم نہیں کہ میں مقبول ہوا ہوں یا رد کر دیا گیا ہوں۔
عید سعید کی بڑی فضیلت آئی ہے، ایک طویل حدیث میں حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے روایت کیا ہے کہ جب عیدالفطر کی مبارک رات تشریف لاتی ہے تو اسے”لیلة الجائزة” یعنی انعام کی رات کے نام سے پکارا جاتا ہے، جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ اپنے معصوم فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے، چنانچہ وہ فرشتے زمین پر تشریف لاکر گلیوں اور راہوں کے سروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس طرح ندا دیتے ہیں”اے امت محمدۖ!اس رب کریم کی بارگاہ کی طرف چلو جو بہت ہی زیادہ عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑے گناہ معاف فرمانے والا ہے۔ پھر اس کے بعد اللہ رب العزت اپنے بندوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے:۔اے میرے بندو! مانگو کیا مانگتے ہو؟ میری عزت و جلال کی قسم! آج کے روز اس (نماز عید) کے اجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کرو گے وہ پورا کروں گا اور جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگو گے اس میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرماؤں گا (یعنی اس معاملہ میں وہ کروں گا جس میں تمہاری بہتری ہو) میری عزت کی قسم! جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے میں بھی تمہاری خطاؤں پر پردہ پوشی فرماتا رہوں گا، میری عزت و جلال کی قسم! میں تمہیں حد سے بڑھنے والوں (یعنی مجرموں) کے ساتھ رسوا نہ کروں گا، بس اپنے گھروں کی طرف مغفرت یافتہ لوٹ جاؤ گے، تم نے مجھے راضی کردیا اور میں بھی تم سے راضی ہوگیا۔”
ایک مرتبہ عیدکے دن آنحضرت سروردو عالمۖ کے گھرمیں کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا، جب آپۖ عیدگاہ جانے لگے، توحضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا:”آج آپ ۖ کی کسی بی بی کے یہاں کچھ کھانے کو نہیں ہے۔” آپۖ نے تبسم فرمایا اور ارشاد فرمایا: ”یہ وہ وقت ہے کہ مجھ پر اتمامِ نعمت ہوا،یہ وہ ساعت ہے کہ مجھ پر فقر کا اطلاق پورا ہوا۔تم غم گین نہ ہو۔” حضرت عائشہ نے فرمایا: ”میں اس سے خوش ہوں، مگر عادت کے موافق فقرا،بیوائیں اور یتیم آئیں گے۔ اُن سے شر مندگی ہوگی۔” آپۖ نے فرمایا:”ہمیں اور اُنہیں اللہ تعالیٰ دے گا۔” یہ کہہ کر آپۖ عیدگاہ تشریف لے گئے، جب واپس آئے تو دیکھا کہ آپۖ کے دروازے سے فقراء کھانا لیے جاتے ہیں۔ جب آپۖ گھر میں تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے فرمایا: ”صحابہ کرام کو بلا لیجیے آکر کھانا کھالیں۔” آپۖ نے پوچھا:”یہ کہاں سے آیا۔” انہوںنے فرمایا:”حضرت عثمان نے ساٹھ اونٹ آٹے، دس اونٹ روغن اور دس اونٹ شہد، سوبکریاں اور پانچ سو دینار نقد بھیجے ہیں۔” آپۖ نے جوشِ شفقت و رحمت سے فرمایا:”اے اللہ تعالیٰ!عثمان بن عفان پر حساب آسان کردے۔” حضرت جبرائیل نے حاضر خدمت ہوکر کہا: ”اللہ تعالیٰ نے آپۖ کی دُعا حضرت عثمان کے حق میں قبول کی، اُن سے روزِقیامت حساب نہ ہوگا۔”
ذرا غور کریں !یوم عید صرف نئے کپڑے پہننے اور لذیذ و عُمدہ کھانے تناول کرنے یا خلاف شرع نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کا نام ہے نہ ہی اس موقع پر کسی انسانی جان کیساتھ کھیلنے یا تکلیف دینے کے دن کو عید الفطر کا استقبال کرنا کہتے ہیں۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ایک انسانی کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قراددے دیا گیا ہے۔گزشتہ سے پیوستہ دن کوئٹہ ، پاراچنار اور کراچی میں اللہ اور بنیۖ کے دشمنوں نے پاکستان کو خون میں نہلا دیا اور 70سے زائد لوگ شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے۔آئیے ! عید کے اس پر مسرت اورعظیم الشان دن میں خوشیوںو محبتوں ، امن وسلامتی اور اخوت و بھائی چارے کا پیکر بن کر رمضان المبارک کو ایسا الوداع کہیں کہ خدا عرش پر فخر کرے اور عید الفطر کی نماز کے اجتماع میں ایسی دعا و مناجات بجا لائیں کہ دوجہاں کے والی محمد مصطفی ۖکی سفارش کبرٰی نصیب ہو ۔بقول شاعر: کی محمدۖ سے وفا توں نے تو ہم تیرے ہیں ۔۔ یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں۔