تحریر : مجید احمد جائی اہل مسلم کے لئے اللہ تعالیٰ نے عیدین جیسی نعمتیں عطا کر کے خوشیوں سے دامن بھر دئیے۔ عیدین خوشی کی نوید ہوتیں ہیں ۔صرف دو عیدوں کی بات کی جائے تو عید الفطر ماہ رمضان کے بعد آتی ہے جسے ہم میٹھی عید بھی کہتے ہیں۔ ماہ رمضان میں رکھے گئے روزوں کا صلہ انعام کی صورت ہمیں ملتا ہے اور عید الالضحیٰ، جسے عید قربان بھی کہتے ہیں۔حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی قربانی کی سنت کو تازہ کرنا ہوتا ہے۔ قربانی کی اصل حقیقت اپنے آپ کو اللہ کی حوالگی اور سپردگی میں دے دینا ہے اور یہی حقیقت اسلام کی بھی ہے ۔اسلام کے معنی اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دینے کے ہیں یعنی اللہ کی مرضی اور اُس کی پسند کے آگے آدمی کی اپنی کوئی مرضی اور اپنی کوئی پسند باقی نہ رہ جائے۔
آدمی اپنی محبوب سے محبوب اور عزیز سے عزیز چیز بھی اللہ کے لئے ہروقت قربان کر دینے کے لئے تیا ر ہے ۔اس حقیقت کو واقعہ کی شکل میں اور اس فلسفہ کو عمل کے جامہ میں پوری تاریخ انسانی میں جس نے پیش کیا ہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں ۔اُنہوں نے اپنے محبوب بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو اللہ کے لئے قربان کر دینے کا عزم بالجزم ظاہر کرکے یہ ثابت کر دیا کہ فی الواقع اُنہوں نے اپنا سب کچھ بغیر کسی استثناء اور تحفظ کے اللہ کے حوالے کر دیا ہے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ اقدام اللہ تعالیٰ کو اتنا پسند آیا کہ اُس نے ان کو مسلم کے لقب سے نوازا اور جس بیٹے کو اُنہوں نے قربان کیا ،اُس کی نسل سے ایک اُمت مسلمہ برپا کی ،جس کی خاص خصوصیت یہ ٹھہرائی کہ وہ دین اسلام کی حامل بنے ۔اس اسلام کی اصل حقیقت کو اپنے اندر برابر زندہ اور تابندہ رکھنے کے لئے اس ابراہیمی قربانی کی یادگار مناتے ہیں۔
قربانی کی اصل حقیقت اللہ کی راہ میں جان کی قربانی ہے ،لیکن اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل اور اپنی مہربانی سے ہمیں اس کا موقع دیا ہے کہ ہم اپنی طرف سے کسی جانور کی قربانی کرکے اپنی جان کا فدیہ ادا کر دیتے ہیں ۔یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے ایک بہت بڑی رعایت ہے اور اُس نے جو جانور ہماری خدمت کے لئے پیدا کیے ہیں جب وہ اللہ کی راہ میں ہمارے بدل کی حیثیت سے قربان ہوتے ہیں تو یہ سب سے بڑی خدمت ہے جو ہماری وہ انجام دیتے ہیں اور یہ سب سے زیادہ اشرف مقصد ہے جس میں ہم ان کو استعمال کرتے ہیں۔جو لوگ ہر چیز کو صرف معاشی پیمانوں سے ناپتے ہیں وہ ان چیزوں کی قدروقیمت نہیں سمجھتے ،اس وجہ سے ان پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں ۔ان کے نزدیک بھیڑوں ،بکریوں کی قدرو قیمت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی سے زیادہ ہے۔
Qurbani
عید الالضحیٰ جذبہ ایثار کا درس دیتی ہے ۔اللہ تعالیٰ کے پاس جانور کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون۔آپ چھ جانوروں کی قربانی کریں یا بارہ کی ،دس ہزار کی قربانی کریں یا دس لاکھ کی ۔اللہ تعالیٰ نیتوں کا اجر دیتا ہے اور وہ ذات کریمی نیتوں سے خوب واقف ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں خود کو دوسروں سے بڑھ چڑھ کر پیش کرنے کی وباء پھیل چکی ہے اور یہ وباء پھیلنے کی اصل وجہ دین اسلام سے دوری ہے ۔ہم اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستوں سے بھٹک کر شیطانی راستوں کر چل دئیے ہیں ۔آج ہماری عبادتیں دکھاوے کی ہیں جو ریاکاری کے زمرے میں آتی ہیں۔سوٹ بوٹ،شوز اعلی سے اعلی ٰ اس لئے پہنتے ہیں کہ دوسرے دیکھیں اور ہمارے ٹھاٹھ بیٹھ جائے یا ہماری چوہداہٹ جمی رہے۔میرے جیسے لوگ قرض لے کر اپنے تن کو دیدہ زیب کرنے کے لئے قیمتی سوٹ بوٹ خریدتے ہیں اور معاشرے میں ناک نہ کٹ جائے کے خوف سے قرض لے لے کر ناک بچانے کے چکر میں رہتے ہیں اور بیچاری ناک پھر بھی کٹ ہی جاتی ہے اور پھر جو رسوائی ہوتی ہے۔
اُف توبہ! گزشتہ دِنوں ہم نے عید الالضحیٰ منائی ۔بہتوں نے منائی اور بہتے ترستے ہی رہ گئے ۔حیران کن بات تو یہ ہے کہ آج کے جدید مشینری دور میں بھی بھائی ،بھائی سے غافل ہے اور صحنوں میں دیواریں چنوادی گئی ہیں۔نفرت ،کینہ پروری،حسد کی فصلیں لہلہارہی ہیں اور ہمدردی ،محبت و اُنس ،جذبہ ایثار کی فصلوں کو بغض ،گمان کی موذی مرض نے آن لیا ہے ۔بھائی ،بھائی کے وجود کو برداشت نہیں کر رہا ہے پڑوسی تو دور کی بات رہ گئی۔
حیران کن بات تو یہ ہے کہ سانجھی دیواریں ہیں ،ایک گھر میں تین تین بکرے قربان ہو رہے ہیں ،اُن کے گوشت سے فریج ،فریزر بھر گئے ہیں اوراُن پہ پہرہ بیٹھا دیا گیا ہے ۔کچھ گوشت کو خشک کیا جا رہا ہے کہ محرم الحرام کے ایام میں پکائیں گے اور کچھ خاص حصے دوستوں کے نام سے رکھ دئیے گئے ہیں ۔جو غریب ،غرباء ،مسکین ،یتیم در پہ آیا اُن کو یہ کہہ کر چلتا کیا کہ ہم نے گوشت بانٹ دیا ہے ۔پھر سانجھی دیوار کے اُس طرف بھائی کے گھر عید کے دن بھی آلو پک رہے ہیں ۔۔۔یہ ہیں ہمارے جذبے ،ہمارے ایمان ، کیسی عید ،کیسی قربانی ۔۔۔۔یہ سب کیا ہے ۔سب دکھاوا رہ گیا۔
Allah
کیا اللہ تعالیٰ دکھاوے کی عبادتیں چاہتا ہے ،یا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قربانی پہ لاکھوں خرچ کرو مگر ساتھ والے پڑوسی کے گھر میں گوشت کی ایک بوٹی بھی نہ جائے۔یہ نفرتیں ،یہ کدورتیں کہاں سے عنود کر آئی ہیں ۔ضرور ہم میں شیطان گھس آیا ہے ۔یہ سب اُسی کا کیا دھرا ہے ۔یہ نفرتیں کہاں سے پیدا ہو گئیں۔۔شیطان کی پیروکاری میں جذبہ ایمانی کھو بیٹھے ۔جذبہ ایثار کو بھول بیٹھے۔گفتار کے شہنشاہ اور عملاًزیرو۔۔کیوں بھائی ۔۔۔۔ ہمارے دائیں بائیں پڑوسی ،رشتے دار،یتیم ،مسکین ،معذورافراد ہمارے منتظر ہیں ۔ہماری توجہ چاہتے ہیں۔ہمارے ذمہ اُن کے حقوق ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ حقوق اللہ تو معاف فرمادیں گے مگر حقوق العباد کیسے معاف کروائیں گے۔کبھی ہم نے سوچا ہے اپنے حقوق چیخ چیخ کر مانگتے ہیں لیکن جو ہماری ذمہ داریاں ،ہمارے ذمہ حقوق ہیں وہ کون پورے کرے گا۔یہ تضاد کیوں۔؟ ہم کردار سازی کرنے کی بجائے کردار کشی شوق سے کرتے ہیں ۔ہم اہل ایمان تو ہیں مگر ہمارے اطوار طریقے ،رسم و رواج ،خالصتاًمسلمانی نہیں رہے۔
ہم یورپ کا لباس اوڑھ چکے ہیں۔دین اسلام صراط مستقیم کا درس دیتا ہے اور ہم عقل و شعور رکھتے ہوئے بھی غافل کیوں ہیں۔؟ہماری عیدیں خالصتاً دین اسلام کی پیروی کیوں نہیں کرتی۔ہم ہر تہوار مناتے ضرور ہیں لیکن دین اسلام کو پشت پردہ رکھ کر۔ہم مذہبی طور پر بگاڑ کا شکار ہو چکے ہیں ،ترقی کے دور سے گزر ضرور رہے ہیں لیکن آج بھی ہم چودہ سو سال پہلے دور جاہلیت میں کھڑے ہیں ۔ہم نے کیا ترقی کی۔ہم نے علم حاصل کیا ،ہمارا عمل کہاں گیا۔۔۔۔۔۔ہماری عیدیں پھیکی ،خوشیوں سے ناپید اور افراتفری میں گزر رہی ہیں ۔کیوں۔۔۔؟اس کی وجہ ہی یہی ہے کہ ہم اپنے آپ کا سوچنے لگے ہیں ،اخلاقیات بھول بیٹھے ہیں ۔دین اسلام کے احکامات بھول گئے ہیں ،بھائی چارے کا نظام بھول گئے ہیں ۔ہم پھر سے دین اسلام کے احکامات ذہن نشین کر نے ہوں گے ۔جب ہم صیحح معنوں میں دین اسلام کے پیروکار بن گئے پھر ہماری عیدیں ،ہر دن ہر رات خوشیوں بھرا ہوگا۔ہر چہرہ خوشی سے جگمگا رہا ہوگا۔فصلیں لہلہاتی ہونگی ۔ہر طرف ہرالی ہو گی ،نفرت کی فصلیں کٹ جائیں گی اور محبت کے شجر لہلہانے لگیں گے۔ بس ہمیں عمل کی ضرورت ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام کا صیحح پیروکار بنائے آمین!۔