قربانی بظاہر موت ہے لیکن باطن زندگی۔ عیدالاضحی میں کی گئی قربانی بھی بظاہر جانوروں کی زندگی سے کھلواڑ معلوم ہوتی ہے مگر یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے حیات کا آغاز ہوتا ہے۔ جانور قربان کر کے اپنی ذمے داریوں سے سبک دوشی کا تصور وہی شخص کر سکتا ہے جو دین اسلام کی ابجد سے بھی نا واقف ہو۔ جانور کی قربانی محض علامتی اور تمثیلی ہے ورنہ اس کے ذریعے جو پیغام دیا جا رہا ہے وہ یہ کہ ہماری حیات سے قربانی کے تعلق کی جڑیں اتنی گہری اور پائیدار ہیں کہ بغیر اس کے حیات کی صحت کا تصور بھی محال ہے۔ عیدالاضحی کی قربانی جس طرح ہماری اخروی زندگی سے متعلق ہے اسی طرح ہماری دنیوی سے بھی متعلق ہے مگر دونوں میں فرق یہ ہے کہ اخروی حیات کی کامیابی اخلاص نیت کی اساس پر استوار ہوتی ہے جب کہ دنیوی زندگی سے نیتوں کا رشتہ اتنا گہرا اور مضبوط نہیں ہوتا۔ عیدالاضحی میں قربانی کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اپنی نیتوں کو مخلص بنائیں۔
اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے لیے ہمہ وقت تیار رکھیں اور اپنی جان، مال، عزت، آبرو غرضیکہ ہر چیز خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے تیار رہیں۔ اگر صرف جانوروں کی قربانی ہی مقصود ہوتی تو پھر نیتوں کا کوئی خاص اعتبار نہیں کیا جاتا جب کہ قربانی کے گوشت، کھال اور خون وغیرہ خدا کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے بلکہ وہاں قربانی کرنے والے کی نیت دیکھی جاتی ہے۔ اگر نیت میں اخلاص نہیں اور وہ کسی قسم کی آمیزش سے خالی نہیں تو پھر موٹے، تندرست، خوبصورت، قیمتی اور زیادہ گوشت والے جانور کی قربانی کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ اس کے برخلاف اگر نیت خالص ہے تو پھر شرعی شرائط کے ساتھ جانور کیسا بھی ہو خدا کے یہاں مقبول ہو کر ہی رہتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جن کی یاد میں عیدالاضحی کے دن دنیا بھر کے مسلمان قربانیاں پیش کرتے ہیں، کے قصے کوہی لے لیں۔ یہاں بھی حضرت اسماعیل یا کسی دنبے کی قربانی مقصود نہیں تھی بلکہ اللہ عزوجل نے محض حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اخلاص نیت کا امتحان لیا تھا جس میں وہ صد فی صد کامیاب رہے۔
Allha
قربانی کے اس پورے منظر نامے پر غور کریں تو فنا اور بقا کا مسئلہ بآسانی سمجھ میں آ جاتا ہے اگر نیت درست ہے یہی قربانی زندگی کی علامت، فتح کی نشانی، کامیابی کی ضمانت، فیروز مندی و ارجمندی کا قرینہ، تقرب الٰہی کا وسیلہ اور مقبولیت کا تمغہ بن کر سامنے آتی ہے اور اگر نیت کا قبلہ درست نہیں ہے تو یہی عدم مقبولیت، ناکامی، کم نصیبی، شکست اور فنا کا استعارہ بن جاتی ہے گویا اصل مسئلہ قربانی کا نہیں نیت کا ہے بلفظ دیگر اصل مسئلہ گوشت، جانور، قیمت، خون، کھال کا نہیں ایمان کاہے کیوں کہ نیت میں اخلاص تبھی پایا جاتا ہے جب ہمارا ایمان مضبوط بنیادوں پر قائم ہوتا ہے اور ہمارے تعلق باللہ کی سطحیں پختہ تر ہوتی ہیں۔ عیدالاضحی کے دن ہر سال جانوروں کی قربانی کی صورت میں ہمارے اخلاص کی تربیت کی جاتی ہے اور نیتوں کی آرائش و زیبائش کا اہتمام ہوتا ہے۔ سال بھر کے اندر ہماری نیتیں برے اثرات قبول کر کے اپنا قدرتی حسن کھو دیتی ہیں یہ عیدالاضحی ہر سال ان کا وہی فطری حسن واپس لانے کی کوشش کرتی ہے۔
حدیث مبارک انماالاعمال بالنیات” یعنی عمل کا دار و مدار نیت پر ہوتا ہے” ویسے تو ہر اسلامی عمل کا بنیادی پتھر ہے لیکن اگر واقعاتی طور پر دیکھا جائے توعمل کی سطح پر اس کے مفہوم کا مکمل اظہار اسی عید کے دن ہوتا ہے۔ یہ عیدالاضحی ہمارے اخلاص کی تربیت گاہ ہے، ہمارے ایمان کی جانچ پرکھ کا مدرسہ اور ہماری نیتوں کا”تھرما میٹر”ہے۔ نیت کی پاکیزگی اور صحت جس سطح کی ہوتی ہے وہ اسی رفتار سے باب اجابت میں داخل ہونے کا تمغہ حاصل کر لیتی ہے۔ عیدالاضحی ہمیں ہر کام میں نیتوں کا قبلہ درست رکھنے کا پیغام سناتی ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی سبق دیتی ہے قربانی کے بغیر چوں کہ بقا کا تصور محال ہے اس لیے بغیر قربانی جس طرح دین میں کوئی مقام حاصل نہیں کیا جا سکتا اسی طرح دنیاوی طور پر بھی کوئی منصب حاصل نہیں ہو سکتا۔ استعارے کی زبان میں کہنا ہو تو کہیں گے کہ قربانی صرف ایک مثال یا علامت ہے خدا کے تقرب، روحانی ارتقا اور باطنی تزکیہ کی۔ اس کے مفہوم کو اگر اور وسعت دیتے جائیں۔
Eid Ul Adha Qurbani
حیرت انگیز طور پر معانی کی پرتیں تہ بہ تہ خودبخود کھلتی چلی جائیں گی اور انسان جس یقین و اعتماد سے دو چار ہو گا وہ یہ کہ قربانی انسان کو بقا کی منزل سے آشنا کراتی ہے فنا نہیں کرتی، یہ حیات کی نوید سناتی ہے، موت کا سناٹا طاری نہیں کرتی۔ اس معنی کا اور پھیلا دیں تو کہا جا سکتا ہے کہ قربانی کو صرف جانور سے منسوب کرنے والے قربانی کو محض کوئی سطحی اور معمولی سی چیز سمجھ بیٹھے ہیں وہ تخلیق حیات سے باخبر ہیں اور نہ راز حیات سے آشنا۔ پوری انسانی زندگی اور اس زندگی کا ہر پہلو قربانی سے اس قد رگہرائی، مضبوطی اور پختگی سے ہم رشتہ ہے کہ بغیر اس کے ترقی کا ایک قدم بھی اٹھانا مشکل ہے۔ اگر آنکھیں نور کی دولت سے معمور اور دماغ شعور کے سرمائے سے مالامال ہو تو کوئی بھی شخص یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ عیدالاضحی گرچہ صرف جانوروں کی قربانی کے لیے ہی خاص ہے مگر یہ باشعور لوگوں کے سامنے غوروفکر اور تعقل و تفکر کے کئی میدان پھیلا دیتی ہے اور حیات انسانی کو بامعنی، بامقصد، بافیض اور باوزن بناتی ہے۔
اس طور سے دیکھا جائے تو یہ عیدالاضحی ہمارے معاشرے کی آنکھ ہے جو ہمیں حسن و قبح، کامیابی و ناکامی، حیات و ممات، فتح و شکست، زیر و زبر، بلندی و پستی، فنا و بقا اور کم نصیبی و خوش نصبیی کے درمیان پھیلے ہوئے سارے فاصلے دکھا دیتی ہے ۔یہ عیدالاضحی ہمارے معاشرے کی دانش ہے جو ہمارے غوروفکر کی سمت تبدیل کرتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ عیدالاضحی کی قربانی کے دو پہلو ہیں ایک ظاہری ہے اور دوسرا باطنی۔ باطنی والا حصہ ہماری نیتوں اور ہمارے ایمان میں پیوست ہوتا ہے اور ظاہری والا حصہ ہماری عام زندگیوں میں اپنی جگہ بناتا ہے۔ عیدالاضحی ہمیں ہر سال یہی پیغام دیتی ہے کہ قربانی زندگی کا راز، حیات کی علامت، ترقی کا زینہ، ارتقا کا وسیلہ اور جینے کا قرینہ ہے۔ زندہ لوگ اس سے حیات کی نمو حاصل کرتے ہیں اور مردہ لوگ رسم و رواج میں قید ہو کررہ جاتے ہیں۔ اب آپ بتائیں کہ آپ کا شمار کس زمرے میں ہے، مردوں میں کہ زندوں میں ؟۔ میں سوچ رہاہوں کہ کہیں میرا شمار مردوں میں تو نہیں ہے۔