خط کو آدھی ملاقات سمجھا جاتا ہے۔ پرانے وقتوں میں کوئی پیغام رسانی ہو یا شادی کی مبارک باد، بیٹے کی پیدائش پر خوشیاں باٹنی ہوں یا عید کی خوشیاں، کسی ماتحت کی سرزنش ہو یا پھر کسی آفیسر کی ترقی، بات ہو درمدات کی یا برآمدات کی ، بیمار کی عیادت ہو یا انتقال پر دکھ کا اظہار ہو ، سرحدوں کی خلاف ورزی پر احتجاج ہو یا جنگ بندی کی درخواست، سیلاب متاثرین سے ہمدردی کا اظہار ہو یا ہمسایہ ملکوں سے اچھے روابط قائم کرنے ہوں، دعوت ولیمہ کا رقعہ ہو یا رسم چہلم کی اطلاع یابی، یہ سب وہ باتیں ہیں جن کے لیئے شہنشاہ سلطنت اپنے ہم منصبوں کے گوش گزار کرنے اور انکے نوٹس میں لانے کے لیئے خطوط(Letters ) کا سہارا لیتے تھے۔
خط قدیمی رسموں میں ایک ہے ۔ آج سے چند برس پہلے لوگ ایک دوسرے کو خط لکھ کر خیریت دریافت کرتے تھے۔ دل جلے اور پریمی اپنا دل بہلانے کے لیئے قلمی دوستی کرتے تھے اور خطوط کتابت کا سلسلہ کئی سال جاری رہتا تھا۔ اور لوگ ایک دوسرے سے ملنے کی بجائے تحریروں کے آشنا ہوتے تھے۔ محبوبائیں کبوتروں کے گلے میں چھٹیاں باندھ کر بھیجتی تھیں اورپھر چھٹیوں کے جواب کا شدت سے انتظار کرتی تھیں۔ مگر جدید ایجادات کی بھیڑ میں یہ قدیمی رسم دم توڑ رہی ہیں۔
کینونکہ جدید دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور تصور کیا جاتا ہے۔ اور اس دور نے قدیمی رویات کے آگے ایک خلیج مائل کر دی ہے۔ جسے پاٹنا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ اس سائنسی ترقی نے نت نئی ایجادات سے عوام کے لیئے سہولیات پیدا کر کے پورے عالم میں تہلکہ مچا دیا ہے اور اسی ترقی یافتہ دور کی بدولت انسان چاند پر قدم رکھ چکا ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ جدید دور کی اہم ایجادات میں شمار ہوتے ہیں۔ اور ملک پاکستان کا ہر دوسرا شخص انکو استعمال میں لا کر اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ موبائل فون نے فاصلوںکو ختم اور دوریوں کو کم کر کے رکھ دیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے۔
جیسے ایک ساتھ بیٹھ کر دو شخص آپس میں باتیں کر رہے ہوںمگر انٹرنیٹ نے تو یہ مشکل بھی آسان کر دی ہے اب آپ سکائپ (Skyp)پہ مطلوبہ کالرز کی تصویر بھی دیکھ سکتے ہیں اب چاہے سات سمندر پار بھی کوئی واقع رونما ہو جائے تو وہ فون کال کی بدولت ہوا کے دوش پر سفر کرتا ہوا اگلے ہی سمے پوری دنیا میں پھیل کر گلی، محلوں ، کوچوں ، شہروں اور ملکوں میں لوگوں کی بحث کا موضوع بنا ہوتا ہے۔
زمانہ قدیم میں یا تو تار بھیجتے تھے یا پھر خط۔۔۔۔۔ مگر انٹرنیٹ اور موبائل کی بڑھتی ہوئی مانگ نے اپنی پرانی روایا ت کو پس پردہ میں ڈال کر ان کا خون کر دیا ہے۔ اب تو پوری دنیا میں ہم ایک فون کال کی دوری پر ہیں۔ بٹن دبانے سے ہم پورے عالم کی سیر کر سکتے ہیں۔ جہاں انٹرنیٹ اور موبائل کے بے شمار فوائد ہیں۔ وہاں ان کے دور رس نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں۔ اور کئی پرانی رسم و روایات کا قتل عام بھی ہوا ہے۔
جس میں ایک واضع اور دم توڑتی ہوئی روایت خط نویسی ہے جو اب نہ ہونے کے برابر ہے۔ لوگ عید سے قبل اپنے پیاروں ، عزیزوں اور رشتہ داروں کو اور ماتحت اپنے آفسرشاہی کو عید کارڈ بھیج کر محبت کا اظہار کرتے تھے اور ماہ رمضان کے پہلے عشرہ میں ہی عید کارڈ کے سٹالز سج جاتے تھے۔
Post Offices
دوکاندار بھی عید کارڈ نمایاں کر کے آویزاں کر دیتے تھے۔ دن رات عید کارڈز کی فروخت کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ اور پوسٹ آفسز میں ٹکٹیں کم پڑ جاتی تھیں۔ عید کارڈ بھیجنے والوں کا جمگھٹا رہتا تھا۔ پندرویں روزے کے بعد تو ڈاک خانوں کا عملہ باقی کام چھوڑ کر صرف اور صرف عید کارڈ بذریعہ پارسل / رجسٹرڈ اور عام ڈاک میں بک کرنے اور رسیدیں کاٹنے میں مصروف عمل ہوتا تھا۔ یہ عید کارڈز مختلف ڈائزین ، خوبصورت سینریز ، شعرو غزل او ر کیلنڈر کے ساتھ خانہ کعبہ ، روضئہ رسول اور مقدس مقامات کی تصاویر پر مشتمل ہوتے تھے۔
مگر انٹرنیٹ اورموبائل فون کی بڑھتی ہوئی مانگ اور مقبولیت نے عید کارڈ ز بھیجنے ایسی پرانی روایات کو ختم کر کے رکھ دیا ہے جسکی وجہ سے محکمہ ڈاک کو کروڑوں کا خسارہ ہو رہا ہے کیونکہ لوگ عید کارڈ بیجنے کی بجائے میسجز اور ای میل کا سہارا لیتے ہیں۔ جو کہ برق رفتاری کے ساتھ مطلوبہ پرسن تک جا پہنچتے ہیں۔ آخر غیر ملکی موبائل فون کمپنیوں سے ملک کو کیا حاصل ؟ غیر ملکی سمز استعما ل میں لا کر ہم اغیار کو نفع پہنچا رہے ہیں۔ اگر ہماری حکومت پاکستان پوسٹ نیٹ ورک ایجاد کر دے تو دہشت گردی کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے۔
غیر قانونی سموں کی خریدو فروخت بھی بند ہو سکتی ہے۔ جس کسٹمر کو بھی کنکشن چاہیے ہو گا وہ اپنے متعلقہ پوسٹ آفس میں درخواست دے کراپنی رجسٹریشن کروانے کے بعد اپنا کنکشن حاصل کر سکے گا۔ جسکا ریکارڈ محکمہ ڈاک کے پاس محفوظ ہو گا۔ اور دہشت گردی میں استعمال ہونے والی سمز کا خاتمہ ہو سکے گا۔ مگر ایسا ممکن نہیں کیونکہ ہمارے حکمران کسی بھی صورت پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں دیکھنا چاہتے۔
ہمارے حکمران تو اپنی اپنی تجوریاں بھر کر ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا جانتے ہیں۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ہوتے ہوئے خط کی اپنی اہمیت ہے ۔ ترقی یافتہ قومیں کھبی بھی اپنی رویات نہیں بھولتیں بلکہ اسے برقرار رکھنے کے لیئے ہر ممکن سعی کرتی ہیں۔ آئیں ہم بھی عید کارڈ جیسی روایت کو دوبارہ بحال کریں اور پاکستان پوسٹ کو سپورٹ کریں اپنے ملک کو سپورٹ کریں اسی میں ہماری نیک نامی ہے اور اسی میں ہماری ترقی کا راز پنہاں ہے۔