تحریر: ماریہ پارس عمیر عیدالفطر قریب آتی ہے تو ہر طرف عید سے پہلے ہی عید کا سماں بندھ جاتا ہے. عورتیں دن بھر بازاروں میں خریداری کرتی نظر آتی ہیں, گھروں میں بہت اہتمام سے سحروافطار کی تیاری کی جاتی ہے. طرح طرح کے ملبوسات بنائے جاتے ہیں, رنگ برنگے جوتے اور جیولری وغیرہ ایک بڑی تعداد میں خرید لی جاتی ہے. عزیزوں دوستوں کو تحفے تحائف دئے جاتے ہیں.
جیسے ہی چاند رات آتی ہے شاپنگ کا زور عروج پر پہنچ جاتا ہے. مہندی لگائی جاتی ہے, ست رنگی کھانے تیار کئے جاتے ہیں اور رات دیر تک جاگ کر چاند رات منائی جاتی ہے.
اگلے دن عید پورے اہتمام کے ساتھ منائی جاتی ہے, رنگ برنگی مٹھائیاں خرید کر لائی جاتی ہیں. پکوان پکتے ہیں, عزیزوں رشتہ داروں کے ہاں دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے. نئے نئے شوخ و شنگ لباس پہنے جاتے ہیں, کھاتے پیتے ہیں, دعوتیں اڑائی جاتی ہیں اور عید انجوائے کی جاتی ہے…
Feeling
ایسے میں ایک چیز جو ہر کوئی بھول جاتا ہے یا کہیں لپیٹ کر کسی پرانی دراز میں رکھ دیتا ہے وہ ہے “احساس”… کسی غریب کی غربت کا احساس, کسی بھوکے کی بھوک کا احساس, کسی یتیم کے لباس کا احساس…..
سوال یہ ہے کہ رمضان کا مقصد کیا ہے؟؟ پورا مہینہ دن کے ایک بڑے حصے تک بھوکے رہنے کا مقصد؟؟ کیا روضے کا مقصد صرف بھوک کاٹنے تک محدود ہے؟؟….. قرآن اور اسلام کی تعلیمات کی رو سے دیکھا جائے تو روضے کا مقصد اللہ کی عبادت کے ساتھ ساتھ, اپنے جیسے لیکن غریب, یتیم اور بھوکے انسانوں کی بھوک کا احساس ہے. تاکہ ہم انکی کی بھوک کا احساس کر کے ان کیلئے روٹی کپڑے اور مکان کا اہتمام کر سکیں. 1400 سال پہلے حضور عید کی نماز پڑھنے اپنے گھر سے نکلے تو ایک روتے ہوئے یتیم بچے کے سر پر دست شفقت رکھ کر گھر لے آئے اور اپنی فرزندی میں لے لیا.
مگر آج کے دور میں دیکھا جائے تو سینکڑوں غریب, یتیم بچے سڑکوں پر بوٹ پالش کر رہے ہیں, کوئی چھابڑی لگائے چھوٹی نوٹی چیزیں فروخت کر رہا ہے اور کوئی چھڑی پر گجرے ٹانگے پھول بیچ رہا ہے. اور صاحب ثروت بنی آدم بہت آرام سے جوتے صاف کروا کر انہیں ٹھوکر لگاتے آگے بڑھ جاتے ہیں. ہر کسی کی فکر اپنے کھانے پینے اور کپڑوں جوتوں تک محدود ہے, لیکن کسی غریب کی کوئی احساس نہیں کرتا… کیا یہی ہے ہماری عید…؟ کیا یہی ہے رمضان کا مقصد…؟ کیا اسی لئے ہم 30 دن بھوک کاٹتے اور عبادت کرتے ہیں تاکہ خوشی کے موقع پر غریبوں کو جوتے کی نوک پر رکھ کر اور لات رسید کر کہ عید کا جشن منایا جائے…؟؟ اے بنی آدم!!!
Poor
احساس کر اپنے جیسے انسان! احساس کر کسی غریب کا! احساس کر کسی کی بھوک کا! احساس کر کسی یتیم کے پھٹے لباس کا! احساس کر کسی کے کچے مکان کا!! اے بنی آدم احساس کر!!! تاکہ اس دنیا کا حسن قائم رہ سکے اور ابن آدم مزید زوال سے اور پاتال میں گرنے سے بچا رہے…!!!