پاکستان جہاں اورکئی میدان میں ابھی دنیا سے بہت پیچھے ہے وہاں رؤیت ہلال کے ایشو پر بھی کئی دہائی پیچھے ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ علم فلکیات کے بانی مسلمان سائنسدان ہیں اورآج مسلمانوں کو ہی اس کیلئے قائل کرنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔ اگر ہم تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں علم ہو گا کہ آج غیر مسلم سائنس کی جس ترقی پر موجود ہیں وہ مسلمان سائنسدانوں کی مرہون منت ہے۔
جدید علم رؤیت ہلال اور فلکیاتی تحقیق کا نظام8 ویں صدی عیسوی سے 16ویں صدی عیسوی تک صرف مسلمانوں ہی کے زیر نگرانی فروغ پایا۔ اس دور کے نمایا ں ناموں میں امام یعقوب بن طارق (8 ویں صدی عیسوی)امام محمد بن موسی الخوارزمی (9ویں صدی عیسوی) امام ابو جعفرالخازن (10 ویں صدی عیسوی) امام محمد بن ایوب طبری (11 ویں صدی عیسوی) الشیخ الفحاد (12 ویں صدی عیسوی)الشیخ موشی بن میمون (12 ویں صدی عیسوی) قابل ذکر ہیں۔ یہ وہ دورتھا جب مسلمان علم کو انبیاء کی وارثت مانتے ہوئے اس کے وارث ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے علم سے محبت کرتے تھے۔
دین اسلام میں جہاں ہماری روزمرہ زندگی گزارنے کیلئے اصول واضح کیے ہیں وہاں معاشرتی اور حکومتی معاملات کیلئے بھی رہنمائی فرمائی ہے۔ جس کیلئے سب سے پہلا اصول اجتماعیت میں رہتے ہوئے اطاعت امیر کا دیا ہے۔ جو شخص اجتماعیت سے نکل کر جتنی بھی اچھی گفتگو کرے اسلام کی نظر میں وہ اتحاد امت کا نہیں بلکہ فتنہ و شر پھیلانے والا تصور کیا جائے گا۔ قرآن مجید میں اس کے بارے میں یوں ذکر کیا گیا ہے وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُکَ قَوْلُہ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیُشْہِدُ اللّہَُ عَلٰی مَا فِیْ قَلْبِہ وَہُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ)o البقرۃ، 2: 204 ( “اور لوگوں میں کوئی شخص ایسا بھی (ہوتا) ہے کہ جس کی گفتگو دنیاوی زندگی میں تجھے اچھی لگتی ہے اور وہ اللہ کو اپنے دل کی بات پر گواہ بھی بناتا ہے، حالاں کہ وہ سب سے زیادہ جھگڑالو ہے”۔ حدیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ الیہ وسلم اجتماعیت اور حکومت کے احکامات کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں۔ فَالْزَمْ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ وَإِمَامَہُمْ (الصحیح بخاری6673 )
“مسلمانوں کی جماعت یعنی ہیئت اجتماعی اور ان کے امام یعنی حکمران کے ساتھ وابستہ رہو”۔
عیدین اور باقی ماہ میں چاند کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا غیر شرعی نہیں ہے۔ بلکہ اس دور کی ضرورت ہے۔ جدید سائنس کے مطابق اسلام کا تصور رکھنے والے عالم دین ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تین دہائی قبل 1991ء سے 2002ء تک کا قمری کیلنڈر ر پیش کر چکے ہیں۔ ان کا یہ کیلنڈر اور اس کے ساتھ ایک تحقیقی مضمون رسالہ “ماہنامہ منہاج القرآن” میں مارچ 1996ء میں پبلش بھی ہوا تھا۔ لیکن انہوں نے آج تک اپنی جماعت یا کارکنوں کو اس کیلنڈر کے مطابق عید کرنے کا حکم نہیں دیا۔ بلکہ اسلامی احکامات کے مطابق حکومت وقت کی پیروی کرتے ہوئے سرکاری سطح سے چاند کے اعلان کو تسلیم کیا۔
سعودی عرب سمیت کئی اسلامی ممالک اور غیر مسلم ممالک میں بسنے والے مسلمان قمری کیلنڈر سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔ کیونکہ ان ممالک میں قمری کیلنڈر سرکاری سطح سے جاری کیا جاتا ہے۔قمری کیلنڈرکی ضرورت اور اہمیت سے انکار نہیں ہے لیکن پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور بطور مسلمان ہمیں اسلامی احکامات کی روشنی میں حکومتی نظام سے وابستہ رہتے ہوئے چاند کے اعلان کو تسلیم کرنا چاہیے۔ پہلی بار پاکستان میں قمری کیلنڈر پر وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی طرف کام کیا گیا ہے، جو کہ ایک انتہائی احسن قدم ہے۔ لیکن اس کیلنڈر کو ابھی تک کسی بھی قانون سازی کے عمل میں نہیں لایا گیا اور نہ ہی حکومتی سطح سے اس کی منظوری دی گئی ہے۔ اس لیے ابھی تک پاکستان میں رؤیت ہلال کمیٹی ہی چاند کے اعلان کی اتھارٹی رکھتی ہے۔ اور شرعی طور پر ہم اس کے ہی پابند ہیں۔ اس کے ساتھ ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ حکومت باقی اسلامی ممالک کی طرح قمری کیلنڈر پر جلد قانون سازی کرے گی۔