عید کی خوشیاں غریبوں کے سنگ

Ramadan

Ramadan

تحریر: سدرہ چوہدری
رمضان مسلمانوں کے لئے ایک مقدس ترین، صبر و تحمل اور رحمتوں کا مہینہ سمجھا جاتا ہےـ ایک مسلمان لئے اس ماہ کے دوران روزے رکھنا ضروری ہےـ اس کے علاوہ ہم مسلمان صدقہ، زکوة اور فطرانہ دے کر مستحق لوگوں کی مدد کرتے ہیںـ اسلامی تعلیمات کے مطابق رمضان المبارک میں نیکی کا اجر کئی سو گنا زیادہ ہو جاتا ہےـ یہی وجہ ہے کہ مسلمان ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں (ایسے کام کرنے میں جو اللہ کو خوش کر سکیں) اس سلسلے میں ایک بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اللہ صرف انہی سے خوش ہوتا ہے جو یہ سب کام ایک اچھی نیت اور بے غرض ہو کر کرتے ہیں۔اب ہم رمضان مبارک کا بابرکت مہینہ گزار چکے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے ان مقاصد کو حاصل کیا ہے جس کے لئے ہم مسلمانوں کو رمضان مبارک کے مقدس کے لئے منتخب کیا گیا ہے؟ کیا ہم وہ سب سبق سکھ چکے ہیں جو اللہ اور اس کے آخری رسول ۖکی طرف سے دی گئی ہدایات کے مطابق ہمیں ہماری زندگیاں گزارنے میں مدد کر سکتے ہیں؟ اس کا جواب دینے کے لئے ہمیں ہمارے ضمیر پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

اگر ہم ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں تو اس کی مثال ایسے ہے جسے ہم ایک ایسی ٹرین کو وقت پر پکڑنے میں ناکام رہے ہیں جسے اب ہم اگلے سال ہی دوبارہ پکڑ سکتے ہیں۔عید، رمضان کا اختتام سمجھا جاتا ہےـ اللہ نے رمضان کے مقدس مہینے کے آخر میں عید الفطر منانے کے لئے مسلمانوں سے کہا ہے کیونکہ انہوں نے اللہ کی رضا اور خوشی کے لئے روزے رکھے اور اب انہیں اجازت دے جاتی ہے کہ وہ تمام چیزیں کھائیں جو اللہ نے اپنی مخلوق کے لئے پیدا کی ہیںـ یہی وجہ ہے کہ رمضان میں اللہ کے حکم کے مطابق روزے رکھنے پرعید کو اللہ کی طرف سے ایک انعام سمجھا جاتا ہے ـ تمام مسلمان اس دن کو بہت خوشی سے مناتے ہیںـ وہ نئے کپڑے اور جوتے پہننے ہیں، مزیدار کھانے کی اشیاء بناتے ہیں۔

میل جول کے لئے ایک دوسرے کے گھروں میں جاتے ہیں۔لوگ عید کے لئے خریداری ماہ رمضان کے پہلے سے شروع کر دیتے ہیں اور رمضان کے مقدس مہینے کے ہر گزرتے دن اس میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور چاند کے مطلع ہونے کے سرکاری اعلان کے فوراً بعد خریداری اپنے عروج تک پہنچ جاتا ہے۔ہر سال پاکستان میں اربوں روپے عید کے موقع پر خرچ کئے جاتے ہیںـ بھاری اخراجات نہ صرف جوتوں، کپڑوں اور زیورات پر بلکہ کھانے کی اشیاء کے ساتھ ساتھ گھروں کی سجاوٹ پر بھی پیسے خرچ کئے جاتے ہیںـ کوئی شک نہیں، عید ہمیں اپنی اسلامی روایات کے مطابق گزارنی چاہیےـ لیکن اس مقصد کے لئے بہت زیادہ پیسہ خرچ کرنا ایک بڑی تعداد اخلاقی سوالات اٹھاتا ہےـ سچ تو یہ ہے کہ ہم رمضان کے روزے رکھنے یا نیک اعمال کو کرنے میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتے جتنی ہم عید کی خریداری میں رکھتے ہیںـ جس طرح ہم عید کا جشن منانے کی تیاری کرتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ عید اس مقدس مہینے سے زیادہ اہم ہے جو کہ رحمتوں سے بھرا ہوا ہے۔

Eid

Eid

اصل میں عید امتحان دینے کے بعد طالب علموں کے لئے ایک اسکول میں نتیجے کے دن کی طرح ہےـ اگر طالب علم امتحان کے لئے تیاری سے زیادہ نتیجے کا دن منانے کی تیاری پر زیادہ وقت اور توجہ دیں ـ تو کیا وہ ایک بہتر انداز میں بڑے دن سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں؟ اسی طرح، جب مسلمان رمضان کے دوران تمام ممنوع چیزیں اور اعمال سے اجتناب کرتے ہیں تو عید رمضان کے بعد اللہ کی طرف سے مسلمانوں کے لئے ایک انعام ہےـ ہمیں کس طرح عید کے موقع پر حقیقی خوشی اور اطمینان ملے گا جب ہم مقدس مہینے کو زیادہ سے زیادہ بہتر انداز میں گزارنے کے مقابلے میں انعام کا دن منانے کے لئے خریداری کو زیادہ ترجیح دیں گے؟اس وقت پاکستان کو نہ صرف افراط زر اور بے روزگاری کی شکل میں اقتصادی بحران کا سامنا ہے بلکہ لوڈشیڈنگ، دہشت گردی، مہنگائی کا بھی سامنا ہےـ مجبور اور غریب طبقے کے لوگوں کی بگڑتی ہوئی صورت حال کو دیکھتے ہوئے کیا یہ مناسب لگتا ہے۔

ہم اپنے مجبور ہم وطنوں کی مدد کرنے کے بجائے عید کی خریداری پر اتنا پیسہ خرچ کریں؟ پچیسویںروزے کو خبر ملی کہ گوجرانوالہ میںنشہ باز سفاک باپ نے بچوں کو عید کے کپڑے دینے کے بجائے چلتی گاڑیوں کے سامنے پھینک دیا جس سے بچے زخمی ہو گئے۔ باپ ایک گھنا سایہ دار درخت بچوں کے تحفظ کی ضمانت ، بچوں کیلئے باپ کی شفقت ، محبت کسی نعمت سے کم نہیں۔ بچوں کی معصوم سی خواہشیں اور فرمائشیں پوری کرنا باپ کی ذمہ داری بھی ہے اور بچوں کا حق بھی لیکن کوٹلی پیر احمد شاہ کے ہسپتال میں پڑے یہ معصوم پھول سے بچے کس سے فریاد کریں جہاں نشے کے عادی ظالم باپ سے اس کی بیوی نے بچوں کو عید کے کپڑے خرید کر دینے کو کہا لیکن ظالم باپ نے معصوم پھولوں کی فرمائش پوری کرنے کے بجائے بچوں کو گھر سے باہر سڑک پر پھینک دیا۔ایسے افراد کی عید پر مدد کرنی چاہئے۔

پاکستان میں بہت سے ایسے ادارے موجود ہیں جو صرف فائیو سٹار ہوٹلوں میں سیمینارز کر کے فوٹو سیشن کرتے ہیں اور غریبوں کے نام پر امداد بٹورتے ہیں۔کچھ ایسے بھی ہیں جو چند افراد کی مدد کر کے تصاویر بنا کر سارا سال فنڈجمع کر کے عیاشی کرتے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں ایسے بھی ادارے موجود ہیں جنہوں نے خدمت خلق کو اپنی زندگی کا مشن بنا رکھا ہے۔جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ تھر کے ہندئوں کی بھی مدد کر رہے ہیں۔پاکستان کے سب سے بڑے رفاہی ادارے فلاح انسانیت فائونڈیشن نے اس سال رمضان المبارک میں تھرپارکر اور بلوچستان سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں 50 ہزار راشن پیک تقسیم کئے۔ اس مقصد کیلئے 10 کروڑ روپے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا جسے عوامی تعاون سے پورا کیا گیا۔

فلاح انسانیت فائونڈیشن کے ہزاروں امدادی رضا کاروں نے فراہمی راشن پروگرام میں حصہ لیا۔ راشن کی تقسیم کا عمل شفاف بنانے کیلئے نادار و مستحق خاندانوں کی رجسٹریشن کی گئی جن میں بیوگان اور یتامیٰ کو اولیت دی گئی۔نہ صرف راشن تقسیم کیا گیا بلکہ فلاح انسانیت فائونڈیشن تعلیم،صحت پر بھی کام کر رہی ہے۔تھر میں ساڑھے آٹھ سو کنویں سائیں سرکار نے نہیں بلکہ فلاح انسانیت کے چیئرمین حافظ عبدالرئوف نے بنوائے۔ قحط آئے سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا لیکن ایف آئی ایف کے رضاکار ابھی بھی وہاں ڈٹے ہوئے ہیں اور تھر کی بے بس و غریب عوام کی مدد کر رہے ہیں۔

Falah Insaniat Foundation

Falah Insaniat Foundation

ایسے ادارے جو صرف اللہ کی رضا کے لئے خدمت کرتے ہیں ماہ مقدس میں اپنے عطیات، فطرانہ، صدقات، ذکوة انہی تک پہنچانا چاہئے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ فلاح انسانیت فائونڈیشن کے دفتر مرکز القادسیہ چوبرجی لاہور میں جمع ہونے والا ایک روپیہ بھی ضائع ہو بلکہ مستحق تک پہنچے گا۔عید سے قبل اگر ہم عید کی خریداری کی رقم میں سے صرف نصف مستحق لوگوں کی مدد کرنے میں خرچ کریں گے، تو اس سے نہ صرف اللہ خوش ہوگا بلکہ ہمیں عید کی حقیقی خوشی ملے گی۔

تحریر: سدرہ چوہدری